ڈیٹا پرائیویسی،۔۔۔۔

دنیا معلومات اور معلومات سے اخذ ہونے والے نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کا نام ہے اور اِس دوڑ میں پاکستان بہت پیچھے ہے۔ یادش بخیر ایک وقت وہ بھی تھا جب قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جیسی دستاویزات حسب ضرورت بنائی جاتی تھیں اور اِن میں درج معلومات بھی کسی ایک دفتر کی فائلوں میں دفن رہتی تھی۔ یہ معلومات جو کسی بھی پاکستانی کی شناخت اور اُس کی ذاتی معلومات پر مبنی ایک بڑے ذخیرے کا حصہ ہوتی تھی اور اِن میں درج کوائف (ڈیٹا) کی بنیاد پر خصوصی امور سرانجام دیئے جاتے تھے۔ مثلاً کسی عام شخص کو صرف انتخابات کے وقت قومی شناختی کارڈ کی ضرورت ہوتی تھی اور اُس پر بھی زیادہ اصرار نہیں کیا جاتا تھا لیکن مارچ 2000ء میں ’نیشنل رجسٹریشن اینڈ ڈیٹابیس اتھارٹی (نادرا)‘ نامی ادارے کا قیام عمل میں آیا جس کے ذریعے صرف انفرادی شناختی کوائف ہی نہیں بلکہ خاندان کے ہر فرد بارے مکمل معلومات‘ پیدائش سے اموات تک کی تفصیلات یکجا رکھی جاتی ہیں اور اِسی قومی شناختی کارڈ نمبر کو عمومی اور الیکٹرانک ذریعے سے ووٹنگ کی بھی بنیاد بنا دیا گیا جبکہ ’ٹیکس نمبر‘ ہونے کی وجہ سے قومی شناختی کارڈ نمبر کاروباری لین دین کا اہم جز بن چکا ہے اور یوں ’نادرا‘ کا کردار سماجی سرگرمیوں‘ وراثتی امور‘ انتخابی معاملات اور قومی معیشت میں کلیدی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ بظاہر معمولی دکھائی دینے والے اِس ڈیٹا (Data) کی بڑی اہمیت ہے کہ کسی شخص‘ مرد و عورت کے بارے میں انفرادی اور اُس کے اہل خانہ و کاروباری و مالیاتی سرگرمیوں کا تعلق اِسی سے جڑا ہے لیکن پاکستان میں حکومتی ادارے اور عوامی سطح پر ’ڈیٹا کی حفاظت (پرائیویسی)‘ کے بارے میں خاطرخواہ شعور (آگاہی) نہیں پائی جاتی۔ ’پرائیویسی انٹرنیشنل‘ نامی عالمی تنظیم کے مطابق کسی شخص کے بارے میں انفرادی و اجتماعی طور پر اکٹھا کی گئی معلومات کو جب کسی جگہ رکھا جاتا ہے اور جب اِن معلومات کی بنا پر کسی شخص کی شناخت کی جا سکتی ہے تو ایسی معلومات کو ”ذاتی معلومات (پرسنل ڈیٹا)“ کے طور پر دیکھا جائے گا اور اِس کی حفاظت متعلقہ حکومتی ادارے کی ذمہ داری ہوگی۔“ انفرادی معلومات کے بارے میں یورپی ممالک نے بھی قواعد وضع کر رکھے ہیں جو  اپریل 2016ء سے لاگو ہیں اور اِن کی رو سے کسی شخص کا نام اور کے اہل خانہ کی تعداد‘ تعلیم‘ کام کاج اور رہائش کے مقام یا مالیاتی امور کے بارے میں معلومات ’حساس‘ تصور ہوں گی اور اِس تک سوائے حکومت کے کسی دوسرے غیرسرکاری ادارے یا تنظیم کو رسائی نہیں ہونی چاہئے۔“ پاکستان کی صورتحال یہ ہے کہ نوجوان ’سوشل میڈیا‘ اور انٹرنیٹ وسائل کا اِستعمال کرتے ہوئے ’ذاتی معلومات (ڈیٹا)‘ کے بارے خاطرخواہ سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ تفریح طبع کیلئے بنائے گئے وسائل (ویب سائٹس) جیسا کہ ٹک ٹاک‘ فیس بک اور یوٹیوب ایسی معلومات بھی اکٹھا کر رہے ہیں‘ جن کا کوئی منطقی جواز نہیں ہوتا۔ سافٹ وئرز بناتے ہوئے ’مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹلی جنس)‘ کا استعمال بڑھ گیا ہے اور سافٹ وئرز کو ایسے طریقوں (ایلگراتھمز) سے لیس کیا جا رہا ہے جس میں وہ کسی صارف کے مقام اور اُس کی آمدن و رہن سہن کے مطابق اُس کی مالی حیثیت کا تعین کرتے ہیں اور پھر اُس کے کوائف کا سیاسی و کاروباری مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ عام انتخابات ہوں یا کاروباری اداروں کی تشہیری مہمات عوام کے اِنہی کوائف کا استعمال کرکے رائے عامہ پر اثرانداز ہوا جاتا ہے۔پاکستان میں ٹیکنالوجی کو زیادہ تیزی سے قبول کیا جا رہا ہے۔ اِس عمل کو اصطلاحی طور پر ’ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن‘ کہا جاتا ہے۔ اگر کسی گھر کے چھ افراد ہیں تو اِن کے پاس چھ موبائل فونز اور ہر فون میں دو سمیں جبکہ لیپ ٹاپ‘ ٹیبلیٹ اور کمپیوٹروں کی صورت دیگر ایسے آلات بھی ہوتے ہیں‘جن کے استعمال کرنے کی شرط ہی انفرادی معلومات فراہم کرنے ہوتی ہے۔ چاہے اِس بارے سنجیدگی سے سوچا جائے یا نہ سوچا جائے اور چاہے اِس بارے میں نئی نسل کی معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے اُن کی توجہ اِس جانب مبذول کروائی جائے یا نہ کروائی جائے لیکن آج ہر خاص و عام پاکستانی کا کسی نہ کسی صورت ’ڈیجیٹل ریکارڈ (فٹ پرنٹ)‘ موجود ہے اور جب عوام و خواص کی اکثریت کو علم ہی نہیں کہ انفرادی ڈیٹا کیا ہوتا ہے تو اُن سے اِس بات کی توقع بھی نہیں کی جانی چاہئے کہ وہ اپنی معلومات کے تحفظ جیسی ذمہ داری سے کماحقہ آگاہ ہوں گے۔ کورونا وبا کی وجہ سے اپریل 2020ء سے تعلیمی تعطل جزوی یا کلی‘ کسی نہ کسی صورت جاری ہے جس دوران درس و تدریس کیلئے وہ ’آن لائن (انٹرنیٹ)‘ وسائل کرنے کے سوا کوئی دوسری صورت نہیں تھی‘ جو پہلے سے مقبول تھے لیکن اُن کو وضع کرنے کا مقصد مختلف تھا اور یہی وجہ ہے یکساں نصاب تعلیم نہ ہونے کی طرح کسی ایسے یکساں اسلوب پر بھی اتفاق نہ ہوسکا جس کے ذریعے صارفین کی آن لائن سرگرمیوں اور انفرادی معلومات کا تحفظ ہو سکتا۔ نتیجہ یہ رہا کہ جن بچوں کے ہاتھ میں موبائل فون اور دیگر الیکٹرانک آلات دیئے گئے وہ بھٹک کر کسی دوسری گلی میں جا پہنچے جہاں اُن کا واسطہ اجنبیوں سے ہوا اور یوں ایک بحران کو حل کرنے کی کوشش میں دوسرے بحران نے جنم لیا جو ہنوز جاری ہے۔ضرورت معلومات کے تحفظ سے متعلق قانون کی بلاتاخیر منظوری کی ہے جو سال 2016ء سے زیرغور ہے اور مذکورہ مسودہئ قانون بنام ”پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA)“ کی عدم موجودگی میں پاکستان نہ تو داخلی اور نہ ہی خارجی اُن خطرات کا مقابلہ کر سکے گا جو انٹرنیٹ صارفین کے کوائف سے متعلق ہیں۔ اگرچہ حکومتی اداروں ’نادرا‘ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق صوبائی محکموں کے قواعد میں ڈیٹا کے تحفظ سے متعلق شقیں موجود ہیں سائبر کرائمز کی روک تھام کے حوالے سے قوانین اور ادارے بھی موجود ہیں لیکن بنیادی نکتہ ’معلومات کے تحفظ‘ کی ہے‘ جس کی جانب خاطرخواہ توجہ (دھیان) نہیں۔