خیبر پختونخوا حکومت نے مالی سال 2021-22کے لئے اپنا تیسرا بجٹ پیش کردیاہے۔ بجٹ کا مجموعی حجم گیارہ کھرب اٹھارہ ارب سے زیادہ ہے۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 21فیصد سے 37فیصد تک اور پنشن میں دس فیصد اضافے کا اعلان کیاگیا۔ جگر کی پیوند کاری کو صحت کارڈ پلس پروگرام میں شامل کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے اور لیور ٹرانسپلانٹ کے ہر مریض پر پچاس لاکھ روپے خرچ کئے جائیں گے جبکہ عارضہ قلب کا علاج پہلے ہی صحت کارڈ میں شامل کیاگیا ہے جو اس صوبے کے عوام کیلئے بڑا ریلیف ہے۔ بجٹ میں چھ لاکھ روپے سالانہ تک زرعی آمدن کوٹیکس سے مکمل چھوٹ دی گئی ہے۔ زرعی ویئرہاؤسز اور کولڈ سٹوریج پر ٹیکس دس فیصد سے کم کرکے ایک فیصد کردی گئی۔ مزدور کی کم سے کم اجرت 20ہزار روپے مقرر کردی گئی۔ بیواؤں کے پنشن میں 100فیصد اضافہ کردیا گیا۔ سرکاری ملازم کی بیوہ اور مستحق بچوں کے ساتھ بوڑھے والدین بھی پنشن کے حق دار قرار دیئے گئے۔ صوبہ بھر میں جامع مساجد کے 20ہزار خطیبوں کیلئے ماہانہ وظیفہ مقرر کردیا گیا۔بجٹ میں غریب خاندانوں کو فوڈ باسکٹ کے نام پر راشن فراہم کرنے کیلئے دس ارب روپے مختص کردیئے گئے۔ گاڑیوں کی رجسٹریشن فیس پہلی بار ایک روپیہ مقرر کی گئی دوبارہ رجسٹریشن مفت ہوگی۔ پروفیشنل ٹیکس ختم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ بڑے ہسپتالوں کی تعمیر و مرمت کیلئے 1439ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ بندوبستی علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے 270ارب اور ضم اضلاع کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے بجٹ میں 100ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ پٹرول پمپوں اور سی این جی سٹیشنوں سے سالانہ 45ہزار ٹیکس وصول کیاجائے گا۔ ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس پر ٹیکس لگانے کیساتھ ڈاکٹروں پر انکم ٹیکس میں دس فیصد اضافہ کیاگیا ہے رہائشی اور کمرشل پلاٹوں کی خرید و فروخت پر سٹامپ ڈیوٹی دوگنی کردی گئی۔رہائشی پلاٹ پر چھ سو روپے اور کمرشل پلاٹ پر بارہ سو روپے فی مرلہ سٹامپ ڈیوٹی عائد کی گئی ہے۔ عوام کو سستا آٹا فراہم کرنے کیلئے بھی دس ارب روپے کی سبسڈی کا اعلان کیاگیا ہے۔ آئندہ سال صوبے میں 84لاکھ افراد کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تعلیمی سال کے دوران 20ہزار نئے اساتذہ اور تین ہزار سکول لیڈرز بھرتی کئے جائیں گے۔ اگرچہ بجٹ میں صوبے میں کوئی میگا پراجیکٹ شروع کرنے کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا تاہم عام آدمی کو ریلیف فراہم کرنے پر توجہ مرکوز رکھی گئی ہے۔کورونا کی وباء، کاروباری سرگرمیوں میں مندی اور روزگار کے دروازے بند ہونے کے باوجود بجٹ کو عوامی اور فلاحی بجٹ قرار دیا جاسکتا ہے۔بنیادی سوال یہ ہے کہ اخراجات کیلئے سوا گیارہ کھرب روپے آئیں گے کہاں سے۔ صوبے کی زرعی اور صنعتی پیداوار اور برآمدات اتنی نہیں ہیں کہ بجٹ کا بیس فیصد بھی کور کرسکیں۔ بجلی کے خالص منافع اور این ایف سی ایوارڈ کی پوری رقم بھی سال بھر میں نہیں ملتی۔ اور ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی سمیت اخراجات جاریہ کیلئے بھی حکومت کو بینکوں سے یا وفاقی حکومت سے قرضے لینے پڑتے ہیں۔ صوبائی محاصل میں جن مدات کا ذکر کیاگیا ہے وہ سب توقعات پر مبنی ہیں ان کی وصولیوں کے امکانات پچاس فیصد سے زیادہ نہیں ہیں۔ اس سے بھی اہم بات منصوبوں کیلئے مختص اور محکمہ خزانہ سے جاری ہونے والے فنڈز کا لیپس ہونا ہے۔ رواں مالی سال کے اختتام تک مختلف شعبوں کیلئے گذشتہ سال کے بجٹ میں مختص کئے گئے پچاس فیصد تک فنڈ وسائل کی عدم دستیابی یا محکمہ جاتی سستی اور لاپراہی کے باعث استعمال ہی نہیں ہوسکے۔ ایسی صورت میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے اربوں روپے کے بجٹ کا اعلان عوامی نقطہ نظر سے بے معنی ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت کی عوام کو ریلیف فراہم کرنے کی نیت شک و شبے سے بالاتر ہے مگر عوامی پروگراموں میں دانستہ تاخیر سے ان فلاحی منصوبوں کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے صوبائی حکومت کو بجٹ میں مختص فنڈ کو سو فیصد بروئے کار لانے کیلئے بھی جامع پالیسی وضع کرنی ہوگی۔تاکہ اس کے ثمرات عوام تک پہنچ سکیں۔