حال ہی میں پیپلزپارٹی (حزب اختلاف) سے تعلق رکھنے والی رکن صوبائی اسمبلی محترمہ نگہت اورکزئی نے خیبرپختونخوا اسمبلی میں ایک مسودہئ قانون کے ذریعے برطانوی عہد کی یادگار قانون کو تبدیل کرنے کی سعی کی ہے۔ذہن نشین رہے کہ خیبرپختونخوا میں شادی کی کم سے کم عمر کا تعین کرنے کا معاملہ صرف موجودہ حکومت کے دور میں شروع نہیں ہوا بلکہ ماضی میں بھی مذکورہ قانون میں ترمیم کے لئے آوازیں اُٹھتی رہیں ہیں۔شادی کی کم سے کم عمر کا تعلق ’مذہب‘ سے بھی ہے اور مذہبی حلقے ایسی کسی بھی قانون سازی کی مخالفت کریں گے جو شادی کی عمر بڑھانے سے متعلق ہو کیونکہ مذہبی حلقے پہلے اِس سلسلے میں تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں لیکن چونکہ سولہ سال شادی کی عمر قیام پاکستان سے قبل قانوناً طے ہے اِس لئے آئینی معاملے کو جوں کا توں رکھا گیا ہے ماضی کی 2 سیاسی جماعتیں (عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلزپارٹی) نے اپنے دور میں کوشش کی تھی لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکیں۔ پورا کھیل سیاسی ہے‘ جس میں شادی کی عمر جیسا اہم معاملہ بھی التوا کی نذر ہے۔خیبرپختونخوا اسمبلی میں شادی کی عمر میں اضافہ کرنے کی ایک کوشش ’ترمیم‘ کی صورت عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والی رکن اسمبلی محترمہ منور سلطانہ نے بھی کی جب جنوری 2013ء میں اُنہوں نے ایک ترمیمی مسودہئ قانون جمع کروایا تو اُنہیں اپنی ہی جماعت کے اراکین اسمبلی کی طرف سے بھی مزاحمت و تحفظات کا سامنا کرنا پڑا خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے پہلے دور حکومت (2013-2018ء) کے دوران اِس سلسلے میں ایک کوشش حکومت کی جانب سے بھی کی گئی لیکن آئین میں ترمیم نہ ہو سکی اور موجودہ (2018ء سے جاری) دورِحکومت میں اِس معاملے کو ایک تکنیکی کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا ہے یہ معاملہ اسلامی نظریاتی کونسل کے سامنے بھی مارچ 2014ء سے زیرغور ہے اور کونسل کی جانب سے یہ واضح ہدایت (تجویز) جاری کی گئی ہے کہ کسی بھی لڑکے یا لڑکی کے لئے شادی کی کم سے کم عمر کا تعین نہیں ہونا چاہئے جبکہ یہ معاملہ سن بلوغت تک پہنچنے سے متعلق ہے۔ ذہن نشین رہے کہ 1929ء کے مذکورہ کے تحت شادی کی کم سے کم عمر لڑکے کیلئے اٹھارہ جبکہ لڑکی کیلئے سولہ سال مقرر ہے اور ایسی شادیاں جو اِس سے قبل کروائی جاتی ہیں اُن کی رجسٹریشن بعدازاں ہوتی ہے۔ اِس سلسلے میں بچوں کے تحفظ اور بہبود کے صوبائی ذمہ دار (چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر کمیشن) کی جانب سے تجویز کی گئی ہے کہ 1929ء کے مذکورہ قانون میں ترمیم کر کے لڑکیوں کیلئے بھی شادی کی کم سے کم عمر 18 سال ہی کر دی جائے۔ اِس سلسلے میں جو قانونی مسودہ 2016ء میں تیار کیا گیا اُس کے تحت اگر کوئی شخص شادی کی کم سے کم عمر کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا گیا تو اُسے تین سال قید اور پینتالیس ہزار روپے تک جرمانہ کیا جا سکتا ہے لیکن یہ قانون منظور نہیں ہوا۔ 1929ء کے قانون کے تحت جس میں لڑکے کے لئے شادی کی عمر اٹھارہ اور لڑکی کے لئے سولہ سال مقرر ہے کی خلاف ورزی کی صورت ایک ماہ قید اور ایک ہزار روپے جرمانہ یا یہ دونوں سزائیں دی جا سکتیں ہیں۔ ایسے ضمنی قوانین موجود ہیں جو بچوں کے تحفظ سے متعلق ہیں اور جن کے ذریعے کم عمری کی شادی کی روک تھام ممکن ہے جیسا کہ 2010ء کا صوبائی چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ کی 30ویں شق کہتی ہے کہ اگر کم عمری کی شادی اور بچوں کا استحصال رسومات کی وجہ سے ہو تو اِس معاملے کو وفاقی حکومت کے قوانین کے تحت کیا جائے گا۔ شادی بیاہ سے متعلق وفاقی اور صوبائی قوانین کا بنیادی مقصد بچوں کی شادیاں جسمانی نہیں بلکہ ذہنی سن بلوغت سے جوڑنا ہے اور اُنہیں اُس مقام تک پہنچ کر شادی کا فیصلہ کرنا چاہئے جہاں وہ بااختیار ہوں۔ جہاں وہ خاندان اور خاندانی رسم و رواج کے تابع نہ ہوں اور جہاں اُن کی سمجھ بوجھ (سن ِشعور) ایک ایسے رشتے کو نبھانے کے لئے خاطرخواہ بلند (و پختہ) ہو‘ جو نئی زندگیوں (ذمہ داریوں) کو جنم دیتا ہے۔