سوا آٹھ کروڑ پناہ گزین۔۔۔۔۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ایچ سی آر کی تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ دنیا میں پناہ گزینوں کی تعداد آٹھ کروڑ 20لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ کورونا وائرس کی وباء کے باوجود مختلف ملکوں کے درمیان جنگوں، سرحدی تنازعات اور اندرونی خلفشار کے باعث اپنا گھر بارچھوڑکر جلاوطن ہونے والے افراد کی تعداد میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ یو این ایچ سی آرکے مطابق 2020میں 30لاکھ افراد اپنا گھر اور ملک چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے جو ایک نیا ریکارڈ ہے۔شام، افغانستان، صومالیہ اور یمن میں جاری تنازعات نے لاکھوں افراد کو اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور کیا جبکہ ایتھوپیا اور موزمبیق میں بھی بحران کے باعث مقامی آبادی بے گھر ہوئی۔یو این ایچ سی آر کے سربراہ فلپو گراندی کے مطابق عالمی وبا کے باعث دنیا بھر میں معیشت سمیت ہر شے رک گئی تھی لیکن جنگوں، تنازعات، تشدد، ظلم و ستم اور امتیازی سلوک ایسے عوامل تھے جن کے باعث لوگوں کی ہجرت جاری رہی۔ 2020کے اختتام پر دنیا میں آٹھ کروڑ 24لاکھ افرادپناہ گزینوں کے طور پر زندگی گزار رہے تھے۔ ان میں وہ لوگ شامل ہیں جو سیاسی پناہ کے متلاشی یا اپنے ہی ملک میں دربدر ہیں۔2011 میں عالمی پناہ گزینوں کی تعداد چار کروڑ تھی گزشتہ دس برسوں میں بے گھر ہو جانے والے افراد کی تعداد دوگنی ہو گئی ہے۔عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ترکی اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ37لاکھ پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے جن میں بڑی تعداد پڑوسی ملک شام کی جنگ سے متاثرہ افراد کی ہے۔پاکستان پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے جہاں 14لاکھ رجسٹرڈ مہاجرین رہائش پذیر ہیں۔ یوگنڈا نے 14لاکھ جبکہ جرمنی نے 12لاکھ پناہ گزینوں کو رہائش دے رکھی ہے۔اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں صرف ان بے گھر افراد کو شمار کیاگیا ہے جنہیں مختلف مراکز میں رجسٹرڈ کیا گیا ہے۔ پاکستان میں اس وقت 35لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں۔ جن میں سے صرف چودہ لاکھ رجسٹرڈ ہیں جبکہ غیر رجسٹرڈ مہاجرین کی تعداد بیس لاکھ سے زیادہ ہے۔ پاکستان کا اعزاز یہ بھی ہے کہ وہ 42سالوں سے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے۔ جو دنیا میں کسی بھی ملک کی طرف سے مہاجرین کی بڑی تعداد کو پناہ دینے کا ایک ریکارڈ ہے۔جبکہ بھارت کے ریاستی جبر کی وجہ سے گھر بار چھوڑ کر پاکستان ہجرت کرنے والے کشمیری پناہ گزینوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے جن کا عالمی ادارے کی رپورٹ میں تذکرہ نہیں کیا گیا۔یو این ایچ سی آر کی رپورٹ  میں برما کے روہنگیا مسلمانوں پر وہاں کی فوج اور حکمران جماعت کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم اور جانیں بچا کر بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں پناہ لینے والوں کا بھی کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ عالمی ادارے کی رپورٹ میں جنگ و جدال، خانہ جنگی اور عدم تحفظ کے باعث ہجرت کرنے والوں کی جو تعداد بتائی گئی ہے ان میں 95فیصد مسلمان ہیں جو اقوام متحدہ، اسلامی ممالک کی تنظیم اور مہذب دنیا کے لئے سوچنے کا مقام ہے۔ دانستہ طور پر بیرونی مداخلت سے ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر جان بچانے کیلئے ہجرت کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔اقوام متحدہ کا قیام بھی دوسری جنگ عظیم کے بعد قوموں کے درمیان تنازعات کو پرامن طور پر حل کرنے اور خون ریزی روکنے کیلئے عمل میں لایاگیا تھا۔ عالمی ادارے نے صحت عامہ، تعلیم و تربیت، بچوں کی فلاح و بہبود سمیت متعدد شعبوں میں اہم خدمات انجام دی ہیں لیکن اپنے قیام کے بنیادی مقصد کو 76سال کا عرصہ گذرنے کے باوجود حاصل نہیں کرسکا۔ 58 اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی کیلئے بھی مختلف ملکوں سے لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں کی ہجرت،مسلمان ملکوں کے معاملات میں بیرونی مداخلت اور اندرونی خلفشار لمحہ فکریہ ہے۔