آمدنی کے لحاظ سے پاکستان کے متوسط اور غریب طبقات اپنی جمع پونجی نقدی کی صورت پاس رکھتے ہیں یا پھر بینک اکاؤنٹس‘ سونا‘ جائیداد یا کرنسی اور گاڑیوں کی خریدوفروخت جیسے سرمایہ کاری کے مواقعوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اِن میں سے بہت ہی کم ’قومی بچت (نیشنل سیونگ)‘ نامی ادارے کی خدمات سے استفادہ کرتا ہے لیکن شاید ہی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی ایسا شخص ہوگا جسے انعامی بانڈز یا نیشنل سیونگ کی دیگر منافع بخش اسکیموں کا علم نہ ہو۔ ذہن نشین رہے کہ نیشنل سیونگ کی پاکستان کے طول و عرض میں 376 شاخیں (برانچیں) ہیں‘ جن میں سرمایہ کاری کا مجموعی حجم 3.4 کھرب روپے سے زیادہ ہے۔ یہ رقم کس قدر ہوتی ہے اِس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہی تین کھرب سے زائد رقم پاکستان کے دو بڑے کمرشل بینکوں (حبیب اُور الائیڈ بینک) کی کل مالیت (اثاثوں) کے مساوی ہے۔ اثاثوں کے لحاظ سے حبیب بینک پاکستان کا پہلا جبکہ الائیڈ بینک پانچواں بڑا بینک ہے۔رواں ہفتے قومی بچت کی چند سکیموں کے شرح منافع میں اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ اضافہ غیرمتوقع اور خاصا نپا تُلا ہے‘ جس کا بنیادی مقصد معیشت کو سہارا دینا ہے اور اِس مقصد کیلئے حکومت نے اپنے مالیاتی بوجھ میں اضافہ برداشت کیا ہے۔ سترہ جون کے روز جاری ہونے والے اعلامیے مطابق حکومت نے قومی بچت مختلف سکیموں میں منافع کی شرح میں اضافہ کیا ہے۔ سب سے زیادہ مقبول ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکٹ کی شرح منافع 9.29فیصد سے بڑھا کر 9.35 فیصد‘ ریگولر انکم سرٹیفکیٹ کی شرح منافع 8.64فیصد سے بڑھا کر 8.76 فیصد‘ چھ ماہ دورانئے کے شارٹ ٹرم سیونگ سرٹیفکیٹ کا شرح منافع 7.14فیصد سے بڑھا کر 7.20فیصد جبکہ سپیشل سیونگ سرٹیفکیٹ‘ سپیشل سیونگ اکاؤنٹ‘ بہبود سیونگز سرٹیفکیٹ‘ پینشنرز بینفٹ اکاؤنٹ‘ شہدأ فیملی ویلفیئر اکاؤنٹ‘ سیونگ اکاؤنٹ‘ تین ماہ کے شارٹ ٹرم سیونگ سرٹیفکیٹس اور بارہ ماہ کے شارٹ ٹرم سیونگ سرٹیفکیٹ پر منافع کی شرح تبدیل نہیں کی گئی۔قومی بچت کے ادارے کا قیام 1873ء میں ’برطانوی راج‘ کے دوران ہوا۔ اُس وقت پہلی اور دوسری جنگ عظیم کیلئے برطانیہ کو مالی وسائل کی ضرورت تھی‘ جس کیلئے بچت منصوبوں اور اُن پر منافع کی صورت مراعات کا اعلان کیا گیا۔ 1943ء میں اِس ادارے کا نام ’نیشنل سیونگ بیورو‘ کر دیا گیا جسے قیام پاکستان کے بعد بھی جاری رکھا گیا۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ نیشنل سیونگ میں سرمایہ کاری انتہائی محفوظ آپشن ہے کیونکہ اِس سرمایہ کاری کی ضامن حکومت ہوتی ہے لیکن کیا ’قومی بچت میں سرمایہ کاری واقعی مالی طور پر منافع بخش (مفید) عمل ہے؟‘ قومی بچت میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی اکثریت ریٹائرڈ افراد یا بیواؤں کی ہوتی ہے جن کیلئے دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کے جھنجھٹ اور اُن سے جڑے خطرات مول لینے کے مقابلے یہی بہتر ہوتا ہے کہ وہ ’قومی بچت‘ کی طرف راغب ہوں۔ قومی بچت کے علاوہ کمرشل بینکیں بھی سرمایہ کاری کی خدمات فراہم کرتی ہیں اور یہ سکیمیں قومی بچت ہی کی طرح محفوظ بھی ہوتی ہیں۔ اِس سلسلے میں 10 ایسے مستقل سرمایہ کاری کے مواقع (بشمول 2 اسلامک سکیمیں) ہیں‘ جن میں سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے اور یہ سبھی سکیمیں گزشتہ دس برس سے چل رہی ہیں۔ اِن میں تین سکیمیں ’ایم سی بی فنڈ‘ ایچ بی ایل سیکورٹیز فنڈ‘ اور این آئی ٹی بانڈ فنڈ ہیں جبکہ 2 اسلامی اسکیموں میں یو بی ایل الآمین اور میزان فنڈ شامل ہیں۔ این آئی ٹی فنڈ کی خاص بات یہ ہے کہ اِس کی نگہبانی بینک کے اثاثہ جات سے الگ ادارہ کرتا ہے۔ اِن کمرشل بینکوں کے مقابلے قومی بچت کے ذریعے جو ماہانہ آمدنی کی سکیمیں ہیں‘ اُن کی تعداد کم ہے اور اگر اِن اسکیموں کے ذریعے دیئے جانے والے دس سالہ منافع کی بات کی جائے تو بہبود سرٹیفکیٹ اوسطاً 12.3فیصد سے منافع دیتا ہے۔ بہبود ٹیکس فری سرمایہ کاری ہے لیکن بہبود سکیم میں ہر خاص و عام سرمایہ کاری نہیں کرسکتا۔ یہ بیواؤں اور معذور افراد کیلئے وضع کی گئی جس کا دائرہ 2004ء میں ساٹھ سال سے زائد افراد تک پھیلا دیا گیا اور یہ اہل افراد (بیوا‘ معذور اور ساٹھ سال سے زائد) بھی انفرادی حیثیت میں زیادہ سے زیادہ پچاس لاکھ کی سرمایہ کاری کر سکتے ہیں جبکہ اجتماعی حیثیت میں ایک کروڑ (دس ملین) تک سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ بہبود کے ذریعے مارکیٹ ریٹ سے زیادہ منافع دیا جاتا ہے اور یہ ایک خاص مقصد کو حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے جبکہ دیگر سکیموں کے مقابلے بہبود کا منافع بھی زیادہ ہے۔ اگر کوئی شخص ایک کروڑ روپے کی بہبود سرٹیفکیٹ میں سرمایہ کاری کرتا ہے تو اُسے ماہانہ ایک لاکھ دو ہزار پانچ سو روپے اوسطاً ملتے ہیں جو کسی بھی دوسری سرمایہ کاری سکیم کے مقابلے زیادہ منافع کی شرح ہے۔ بہبود کو مارکیٹ ریٹ سے زیادہ شرح منافع کیلئے وضع کرنے کا مقصد بھی ایک خاص طبقے کی ضروریات اور مشکلات کو مدنظر رکھا گیا تھا۔ قومی بچت کی جن سکیموں پر ٹیکس منہا کیا جاتا ہے اُن کے بیشتر صارفین اپنے ٹیکس ریٹرن فائل نہیں کرتے۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ مختلف اداروں میں ٹیکس ادا کرنے والے اگر اپنا سالانہ ٹیکس گوشوارہ باقاعدگی سے داخل دفتر نہ بھی کریں تب بھی اُن سے پوچھ گچھ نہیں ہوتی اور ٹیکس وصولی کے نظام میں اِس خرابی کو دور کرنے کیلئے بھی سوچ بچار ہونی چاہئے کیونکہ وہ منافع بخش ذریعہ قومی آمدنی کیلئے خسارے کا باعث بن رہا ہے‘ جس کے ذریعے ایک خاص متوسط اور غریب طبقے کو سہارا تو حاصل ہے لیکن اِس کا ناجائز فائدہ بھی اُٹھانے والوں کی کمی نہیں۔