دنیا میں کوئی بھی قوم اپنے تہذیبی، ثقافتی، ادبی اور تاریخی ورثے سے ناطہ توڑ کر اپنی بقاء کی جدوجہد میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ برصغیر کے اس خطے کی ثقافت، ادب اور تاریخ کے مطالعے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ہمارے اسلاف کا شماراپنے دور کی ترقی یافتہ اقوام میں ہوتا تھا۔ گندھار تہذیب کے آثار جہاں سے بھی ملے ہیں ماہرین آثار قدیمہ کیلئے صدیوں پرانی ثقافتی ورثے کی یہ نشانیاں چشم کشا اور حیران کن ہیں۔ گندھارا ہندکو اکیڈمی نے اسی تاریخی ثقافتی اور ادبی ورثے کو اپنا اثاثہ بناکر موجودہ معاشرتی ڈھانچے کو ان بنیادوں پر استوار کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ تیس سال قبل زبان و ادب اور ثقافتی ورثے کو تحفظ دینے کیلئے جو پودا لگایاگیا ہے وہ آج تناور درخت بن چکا ہے۔ اور اس کی آبیاری اپنے دور کے نامور ادیبوں، شاعروں، اہل قلم اور اہل دانش نے کی جن میں رضا ہمدانی، فارغ بخاری، خاطر غزنوی، ڈاکٹر ظہور احمد اعوان اور ڈاکٹر صلاح الدین جیسی شخصیات شامل ہیں۔کسی ادارے کے قیام اور استحکام کیلئے تین عشروں کی مدت بہت قلیل عرصہ ہے تاہم گندھار اکیڈمی نے اس مختصر عرصے میں اس صوبے میں ادب و ثقافت کی ترقی اور تاریخی ورثے کے تحفظ کیلئے گرانقدر کام ہے اس صوبے میں بولی جانے والی تمام زبانوں کی ترقی اور ترویج کا بیڑہ اکیڈمی نے اٹھایا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ اب تک مختلف زبانوں میں 500سے زائد کتابیں اکیڈمی کی نگرانی میں شائع ہوچکی ہیں ان میں سے کئی کتابوں کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایوارڈ بھی ملے ہیں۔ اکیڈمی کے کریڈٹ میں تین بین الاقوامی ادبی و ثقافتی کانفرنسوں کا انعقاد بھی شامل ہے۔ خواتین کیلئے سہ ماہی رسالہ ”فاطمہ“ کا اجراء بھی گندھارا اکیڈمی کا ایک منفرد اعزاز ہے یہ کسی بھی زبان میں چھپنے والا صوبے میں خواتین کا پہلا رسالہ ہے۔ اکیڈمی کے زیراہتمام قومی تہواروں پر ریلیوں، سمیناروں، کانفرنسوں کا انعقاد بھی تواتر سے ہورہا ہے۔مشاعرے، خطاطی،مضمون نویسی اور تقریری مقابلے بھی کرائے جاتے ہیں۔ اکیڈمی نے ایک لائبریری بھی قائم کی ہے جس میں تین ہزار سے زائد نادر کتابیں موجود ہیں جنہیں انٹرنیٹ سے بھی منسلک کردیاگیا ہے۔ پچیس ہزار الفاظ پر مشتمل ڈکشنری، اڑھائی ہزار محاوروں پر مشتمل کتاب کے علاوہ پشتو اور ہندکو کے دس ہزار مشترک الفاظ کی ڈکشنری کی اشاعت اکیڈمی کا منفرد کارنامہ ہے۔ ان کے علاوہ دس ہزار تصاویر پر مشتمل کلچرل ٹریل بھی بنایاگیا ہے جس میں پشاور کی قدیم عمارات، گلیوں، ثقافتی مراکز، بازاروں اور دیگر تاریخی مقامات، اہم سیاسی و ادبی شخصیات اور ثقافتی میلوں کی عکاسی بھی شامل ہے۔ گندھار ہندکو اکیڈمی نے مادری زبانوں میں درسی کتابوں کی اشاعت کا اعزاز بھی حاصل ہے یہ کتابیں پرائمری، مڈل اور سیکنڈری کی سطح پر سکولوں کے نصاب میں شامل کی گئی ہیں۔ خیبر پختونخوا ملک کا وہ واحد صوبہ ہے جہاں سب سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔یہ زبانیں بولنے والی اقوام کی اپنی ثقافت، تاریخ، تمدن، ادب اور تاریخی پس منظر ہے۔ یہ قومیتیں، زبانیں، ادبی و ثقافتی ورثے صوبے کے سماجی گلدان میں انواع و اقسام کے پھولوں کی مانند ہیں۔ انہیں معدوم ہونے سے بچانے اور ان کی آبیاری کی ضرورت ہے جس کی ذمہ داری گندھارا اکیڈمی نے اٹھائی ہے۔ دیگر زبانوں سے تعلق رکھنے والی ثقافتی اور ادبی انجمنوں کو بھی گندھارا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صوبے کے ثقافتی ورثے کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور متعلقہ سرکاری اداروں کو بھی نجی شعبے کی ان ثقافتی اور ادبی تنظیموں کی بھر پور سرپرستی کرنی چاہئے۔ ثقافتی یلغار کے موجودہ دور میں ہم اپنی زبان، اقدار، تہذیب، ثقافت اور روایات سے غیر محسوس طریقے سے دور ہوتے جارہے ہیں جس سے ہمارے تشخص کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔پشتو، ہندکو، کہواراور گوجری کے سوا دیگر زبانوں کے رسم الخط بھی موجود نہیں، ان زبانوں کو قلمی نسخوں کی شکل میں محفوظ بناکر انہیں معدوم ہونے سے بچایاجاسکتا ہے۔ جس کیلئے حکومت، محکمہ ثقافت،میڈیا،ثقافتی اور ادبی انجمنوں کو مل جل کر کام کرنا ہوگا۔