سماجی رابطہ کاری کے وسائل (سوشل میڈیا) کی حدود و قیود (اخلاقیات) اور قواعد و ضوابط معاشرے کے سنجیدہ طبقات پریشان ہیں اور اِسی بابت ایک مقدمہ ’عدالت عالیہ (پشاور ہائی کورٹ)‘ کے چیف جسٹس قیصر رشید اور جسٹس سیّد عتیق شاہ کے سامنے زیرغور ہے۔ سماعت کے دوران انٹرنیٹ کے نگران ادارے ’پاکستان ٹیلی کیمونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)‘ کی جانب سے اِس بات کا اعتراف کیا گیا کہ اِس نے ’ٹک ٹاک (TikTok)‘ پر غیراخلاقی مواد کی تشہیر دیکھی ہے اور ایسی قریب 7 لاکھ 20 ہزار اکاونٹس تک پاکستان میں رسائی محدود کی گئی ہے جنہوں نے قریب 98 لاکھ ویڈیوز جاری کی تھیں۔ تصور کریں کہ سوشل میڈیا پر نظر رکھنا کس قدر مشکل ہے کہ جہاں ہر دن درجنوں اور سینکڑوں نہیں بلکہ ہر گھنٹے سینکڑوں ہزاروں ویڈیوز کا اضافہ ہو رہا ہو تو ایسی صورت میں قواعد و ضوابط کا اطلاق قطعی آسان نہیں ہوتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب کوئی قابل اعتراض ٹک ٹاک ویڈیو سامنے آتی ہے تو اُس کی مذمت سے زیادہ اُسے پھیلانے والے بلاسوچے سمجھے ایک ایسی سرگرمی کا حصہ بن رہے ہوتے ہیں جس کی فطرت مجرمانہ ہے۔ ٹک ٹاک نامی سافٹ وئر ’بائٹ ڈانس (ByteDance) نامی چینی کمپنی کی ملکیت ہے جس کا باقاعدہ ورژن ستمبر 2016ء میں ریلیز ہوا۔ چالیس زبانوں میں دستیاب اِس سافٹ وئر کے ذریعے مختصر دورانیے (پندرہ سیکنڈز) کی ویڈیوز کا تبادلہ کیا جاسکتا ہے۔ ٹک ٹاک کے دنیا بھر میں قریب 70 لاکھ فعال صارفین ہیں اور یہ سوشل میڈیا وسائل میں دنیا کا 7واں مقبول ترین ذریعہ ہے۔عدالت عالیہ سے پشاور سے تعلق رکھنے والے 40 شہریوں نے رجوع کیا ہے اور درخواست کی ہے کہ ’پاکستان ٹیلی کیمونیکشن اتھارٹی‘ اور ’فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی‘ ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرے کیونکہ یہ پاکستان کے آئین اور سوشل میڈیا سے متعلق قواعد و ضوابط کے علاوہ شرعی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے اور پاکستان میں کسی بھی ایسے مواد کی تشہیر کی اجازت نہیں ہونی چاہئے جو اسلامی طرز زندگی و معاشرت کے خلاف ہو۔ عدالت نے کیس کی آئندہ سماعت کے لئے ’22 ستمبر‘ کی تاریخ مقرر کی ہے۔وفاقی ادارے کی جانب سے عدالت کو جو حوصلہ افزا باتیں بتائی گئی ہیں اُن میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ٹک ٹاک کی جانب سے پہلی مرتبہ پاکستان کیلئے ایک ’فوکل پرسن‘ مقرر کیاگیا ہے جو پاکستان کے نکتہئ نظر سے تشہیری مواد اور حکام کی جانب سے شکایات کا نوٹس لے گا اور ٹک ٹاک کا مذکورہ فوکل پرسن اسلام آباد (مقامی طور) پر تعینات کیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا کمپنیوں سے متعلق پاکستانی قانون کسی بھی ایسی کمپنی کی خدمات کا دائرہ پاکستان تک وسیع کرنے کو روکتا ہے جس کا پاکستان میں دفتر نہ ہو لیکن ایسی درجنوں سوشل میڈیا کمپنیاں ہیں‘ جو غیرقانونی طور پر پاکستان میں فعال ہیں لیکن وہ یہاں کے قانونی تقاضوں کو پورا نہیں کرتیں۔ دوسری طرف خاص نکتہ یہ بھی ہے کہ سوشل میڈیا اب محض تفریح طبع کا ذریعہ نہیں رہا بلکہ اِس کے ذریعے ممالک اور تہذیبوں کے درمیان باقاعدہ جنگ جاری ہے اور اِس حقیقت کے بارے میں درجنوں تحقیقی مقالات موجود ہیں۔ جہاں تک اسلامی تہذیب و تمدن اور معاشرت (سماجیات)کا تعلق ہے کہ جنہیں مشرقی اقدار بھی کہا جاتا ہے کیلئے سوشل میڈیا کی یلغار سے زیادہ بڑا کوئی دوسرا خطرہ نہیں ہو سکتا۔ حیرت کا مقام یہ ہے کہ اِس خطرے کا کماحقہ احساس نہیں کیا جا رہا جو نوجوان نسل کو خشک لکڑیوں کی طرح جلا رہا ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ چند کروڑ سوشل میڈیا صارفین کے کھاتوں پر پابندی عائد کر کے اور کسی عدالت سے حکم و ہدایات جاری کروا کر سوشل میڈیا کو نکیل ڈالی جا سکے گی تو یہ اُس کی بھول ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ صرف ’ٹک ٹاک‘ ہی نہیں بلکہ یوٹیوب اور فیس بک بھی پاکستان میں انتہائی مقبول ہیں جبکہ واٹس ایپ اور ٹیلی گرام نے الگ سے اندھیر نگری برپا کر رکھی ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ 1: سوشل میڈیا وسائل تخلیق کرنے والوں کی اپنی کوئی ذاتی رائے نہیں بلکہ اُنہوں نے سب کچھ صارفین کے حوالے کر رکھا ہے۔ 2: کسی بھی عالمی تنظیم یا ملک نے پاکستان پر پابندی عائد نہیں کر رکھی کہ یہ اپنا سوشل میڈیا پلیٹ فارم تخلیق نہ کرے اور قومی سطح پر سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ کاری کی جو ضرورت ہے اُور جو خلأ موجود ہے اُسے پُر نہ کرے۔ غیرملکی سوشل میڈیا ویب سائٹس سے خیر کی توقع کرنا عبث ہے۔عدالت عالیہ کو بتایا گیا ہے کہ ٹک ٹاک پر نظر رکھنے کے لئے وفاقی ادارے نے پہلے 116 افراد (موڈریٹرز) تعینات کئے تھے جن کی تعداد بڑھا کر 476 کر دی گئی ہے۔ یہ نگران ٹک ٹاک ویڈیوز کا اسلامی‘ اخلاقی اور سماجی (جملہ آئینی) پہلوؤں سے جائزہ لیتے ہیں اور ’پی ٹی اے‘ ٹیکنالوجی کی دنیا پر حکمرانی کرنے والے ممالک سے بات چیت بھی کر رہی ہے کہ وہ کوئی ایسا خودکار نظام (سافٹ وئر) تیار کریں جس سے ٹک ٹاک سمیت سوشل میڈیا پر غیراخلاقی ویڈیوز کی ازخود شناخت اور تطہیر ممکن ہو سکے۔ ٹک ٹاک کی تخلیق کا مقصد تفریح طبع تھا جس کے قیام کا مقصد طوفان بدتمیزی میں اوجھل ہوچکا ہے کیونکہ سوشل میڈیا کی تعمیر ہی میں ایک صورت خرابی کی یہ رکھی گئی کہ اِسے ’مادر پدر آزادی‘ دی گئی اور ہر قسم کا مواد صارف کی صوابدید پر ’اپ لوڈ‘ ہونے لگا اِس لئے خرابیاں پیدا ہوئی ہیں۔ تجویز ہے کہ اگر عدالت عالیہ پاکستان میں صرف اُن سوشل میڈیا کمپنیوں کو رسائی کی اجازت دے جو اپنے وسائل پر موجود موادکی سوفیصد ذمہ داری قبول کریں اور دیگر ایسے تمام ذرائع پر پابندی عائد کر دی جائے تو اِس سے ایک نئے سوشل میڈیا کے دور کا آغاز ہوگا۔ بصورت دیگر اگر پاکستان 476 تو کیا چار لاکھ نگران بھی مقرر کر لے تو وہ بہت جلد تھک کر ہار مان لیں گے اور سوشل میڈیا کی حسب ضرورت تطہیر نہیں ہوگی۔