لینڈ ریکارڈ: اَدھورے کام۔۔۔

خیبرپختونخوا میں جائیداد (اراضی) کی تفصیلات (لینڈ ریکارڈ) کی کمپیوٹرائزیشن کا مرحلہ وار عمل سال 2013ء میں 7 اضلاع (پشاور‘ مردان‘ ایبٹ آباد‘ بونیر‘ کوہاٹ‘ بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان) سے شروع کیا گیا اور خوب چرچا رہا لیکن تکمیل اور اہداف کا خاطرخواہ حصول ممکن نہیں‘ جس کی بنیادی وجہ صوبہ پنجاب کی طرز پر ٹھیکیداری نظام کے ذریعے اعدادوشمار کو کمپیوٹرائزڈ کرنا ہے جبکہ ’خدمات کے مراکز (سروس سنٹرز)‘ کے ذریعے سرکاری ملازمین اِس نظام کے نتائج فروخت کرتے ہیں جو آمدن کے مقابلے زیادہ اخراجات کا ذریعہ ہے۔
 لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزیشن کا دوسرا مرحلہ سال 2015ء سے جاری ہے جس میں 12 اضلاع (سوات‘ شانگلہ‘ مانسہرہ‘ بٹ گرام‘ نوشہرہ‘ چارسدہ‘ ہنگو‘ کرک‘ ہری پور‘ صوابی‘ لکی مروت اور ٹانک) شامل ہیں۔ ابتدائی حکمت عملی وسیع و عریض (کثیرالجہتی) تھی کہ (کمپیوٹرائزیشن) میں صرف جائیداد (اراضی) کی ملکیت ہی نہیں بلکہ دیگر امور سے متعلق معلومات بھی جمع کرنا تھیں جن میں شجرہئ نسب کی تفصیلات رکھنا اور ایسی معلومات اکٹھا کرنا جو مستقبل میں ٹیکس کی شرح میں ردوبدل (ٹیکسیشن) اور محصولات کی منصوبہ بندی کیلئے کارآمد ہوں لیکن ایسے بہت سے متفرق اہداف (بلند بانگ دعوے) نہایت ہی سست روی سے آگے بڑھ رہے ہیں اور لگتا ہے کہ آئندہ 100 سال میں بھی خیبرپختونخوا کی صرف ’لینڈ ریکارڈ ہی کی کمپیوٹرائزیشن‘ کا عمل بھی مکمل نہیں ہوگا کیونکہ لینڈ ریکارڈ مسلسل بڑھ رہا ہے یا اِس میں تبدیلیاں آ رہی ہیں اور جب تک موجودہ (ماضی کا) ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہوگا اُس وقت تک حال کے ریکارڈ کے انبار لگے ہوں گے۔ اصولاً کمپیوٹرائزیشن کا عمل جائیداد کے جاری انتقالات یا رجسٹری سے شروع ہونا چاہئے تھا جسے ماضی کے لینڈ ریکارڈ سے الگ رکھا جاتا اور ’سیاسی نیک نامی‘ کے لئے جس انداز میں ادھورے کام پر ’آن لائن خدمات (سروس ڈیلیوری) کا آغاز‘ کر دیا گیا ہے اُس وقت تک جاری نہ کیا جاتا جب تک ماضی کا تمام اور حال کا جاری عمل ایک جگہ مکمل شکل میں ترتیب نہ پا چکے ہوتے لیکن لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزیشن کے عمل کو مربوط رکھتے ہوئے الگ الگ حصوں میں تقسیم کرنے کی بجائے اِسے ایک متوازی نظام کے طور پر متعارف کروایا گیا اور اب صورتحال یہ ہے کہ کہیں زیادہ تو کہیں کم لیکن ”کام ادھورا ہے“آخر یہ کونسا ایسا ”پہاڑ“ جتنا بڑا کام ہے کہ جس کی گھتیاں سلجھائے نہیں سلجھ رہیں! سب سے بنیادی غلطی یہ ہے کہ اراضی سے متعلق پرانے ریکارڈ کی ڈیجیٹل نقول بذریعہ سکیننگ (scanning) محفوظ نہیں کی جا رہیں اور نہ ہی اراضی کے محل وقوع کو گوگل میپ (Google Map) یا گوگل اَرتھ (Google Earth) جیسے مفت وسائل کے استعمال سے عام فہم انداز میں جامع بنایا جا رہا ہے۔ ’جیوگرافک انفارمیشن سسٹم (GIS)‘ اور ’گلوبل پوزیشنگ سسٹم (GPS)‘ سے کیوں استفادہ نہیں کیا جا رہا اور کیا اِس کے لئے کوئی نیا منصوبہ لایا جائے گا؟ اِس بارے میں متعلقہ حکام خاموش ہیں۔کسی ضلع میں لینڈ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کے عمل کی نگرانی وہاں کی ضلعی انتظامیہ کرتی ہے۔ یوں ڈپٹی کمشنر اپنے ماتحت ایڈیشنل کمشنر اور ایڈیشنل کمشنر اپنے ماتحت ڈپٹی ڈائریکٹر ڈیٹابیس اور ڈپٹی ڈائریکٹر ڈیٹابیس اپنے ماتحت سرکاری و نجی ادارے کے ملازمین سے کام لیتے ہیں۔ ایک سیدھے سادے نظام کو انتہائی پیچیدہ اور افرادی قوت کے لحاظ سے اتنا پھیلا دیا گیا ہے کہ اِس سے کم قیمت (کم خرچ) نظام یہی بہتر تھا کہ ہر پٹواری کو ایک ایک کمپیوٹر (ڈیسک ٹاپ یا لیپ ٹاپ) دیدیا جاتا تو پٹوار خانے سے جڑی عوامی شکایات کے فوری حل کی سبیل کی جاتی تو متعلقہ حلقہ جات کے اراضی سے متعلق تنازعات کے حل اور اراضی کے صارفین کی زندگیوں میں سکون کا دور دورہ دیکھنے میں آتا۔’لینڈ کمپیوٹرائزیشن‘ کا جاری عمل جہاں کہیں اور جس قدر بھی ”مکمل“ ہوا ہے حالانکہ اِسے تکنیکی طور پر ”مکمل“ قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ کسی ایک ضلع کے کچھ موضع جات اور اِن موضع جات کے کچھ حصوں کا ریکارڈ جس قدر تفصیلات کے ساتھ محفوظ ہوا ہے وہ ناکافی ہے اور اِس بارے میں عوام الناس کی اکثریت کو علم نہیں اور جنہیں معلوم بھی ہے‘ تو اُن کی تسلی و تشفی کا خاطرخواہ اہتمام نہیں ملتا۔ ’لینڈ ریکارڈ‘ سے متعلق بنیادی بات اُس پٹوارخانے بشمول گرداور کی بادشاہت (اختیارات و کردار) کو ختم کرنا ہے‘ جس کا وجود کمپیوٹرائزیشن کے بعد بھی قائم رہے گا اور اُس کے ذمے بہت سارے کام جن میں ادنیٰ ترین ’ڈومیسائل فارمز‘ کی تصدیق ہے باقی رکھا گیا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ’نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)‘ کی ڈیٹابیس موجود ہونے کے باوجود اگر کسی نئی ’ڈیٹابیس‘ کی تخلیق کی جاتی ہے اور قومی و صوبائی ڈیٹابیسیز کو الگ الگ دائروں میں محدود رکھا جاتا ہے تو اِس سے ’اِی گورننس‘ کے اہداف حاصل نہیں ہوں گے‘ چاہے جتنی ہی سنجیدگی سے جس قدر مزید وقت بھی کیوں نہ ضائع کر لیا جائے۔ خیبرپختونخوا میں کمپیوٹرائزڈ ’لینڈ ریکارڈ‘ تک ’آن لائن رسائی‘ صرف اُسی متعلقہ ضلع کی حد تک محدود ہے جبکہ اِس تک رسائی آن لائن اور قومی شناختی کارڈ سے منسلک کرتے ہوئے صوبے کے کسی بھی حصے سے باآسانی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ اِس سلسلے میں فیصلہ سازوں کو ’ہوائی جہازوں‘ کے ’اِی ٹکٹ‘ جاری کرنے کے نظام کا مطالعہ کرنا چاہئے جس میں ’ڈیٹابیس‘ ہی کے ذریعے مسافر کو ’پی این آر (پیسنجر نیم ریکارڈ) نمبر‘ جاری کیا جاتا ہے اور کسی بھی مسافر کو جاری کیا جانے والا نمبر نہ تو دوبارہ جاری کیا جاتا ہے اور نہ ہی ہر روز سینکڑوں ہزاروں نمبر جاری کرنے میں غلطی ہوتی ہے کیونکہ یہ سب کمپیوٹر سافٹ وئر کی زبان ”سٹرکچرڈ کیوری لینگویج SQL“ کے ذریعے تخلیق کیا جاتا ہے جس کی خاصیت یہ ہے کہ اِس کی ڈیٹابیسیز لامحدود کوائف (ڈیٹا) سٹور کر سکتی ہیں اور ’ایس کیو ایل‘ کے لئے صرف خیبرپختونخوا تو کیا پورے ملک کا ’لینڈ ریکارڈ‘ محفوظ رکھنا بھی معمولی بات ہے لیکن اِس سے لیا جانے والا کام اپنی ساخت‘ نوعیت اور خاصیت میں اِنتہائی محدود اور بنیادی نوعیت کا ہے اور اِسے صرف آج نہیں بلکہ مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب و تشکیل دینا چاہئے۔