خیبرپختونخوا میں اراضی (جائیداد) کے مالکانہ حقوق‘ حصہ داری‘ شراکت‘ جائیداد کی خریدوفروخت سے متعلق قانونی دستاویزی معاملات و تفصیلات مرتب کرنے‘ لینڈ ریکارڈ پر وقتاً فوقتاً نظرثانی (اَپ ڈیٹ) اور اِس کی حفاظت و طلب کرنے کی صورت میں کسی صارف کو متعلقہ اراضی (جائیداد) کے بارے معلومات فراہم کرنے کی ذمہ داری ’پٹوارخانے‘ کی ہے‘ جو ضلعی انتظامیہ (کمشنر‘ ڈپٹی کمشنر اور ایڈیشنل کمشنر) کے ماتحت ہوتا ہے اور صوبائی محاصل (ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی) کا بڑا ذریعہ ہونے کے علاوہ محافظ (custodian) کا کردار ادا کرتا ہے‘ تاہم اِن خدمات کا حصول آسان نہیں جبکہ اِن کی سرکاری اور غیرسرکاری شرح فیسیں بھی تنازعے کا باعث ہیں! لیکن اِس پوری صورتحال کے بارے میں ’پٹوار خانے‘ کا ’اختلافی نکتہئ نظر‘ جاننا ضروری ہے جو خاصا دلچسپ بھی ہے۔پٹواریوں کی نمائندہ تنظیم کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ ”قیام پاکستان سے قبل اور بعد سینکڑوں برس سے عملہئ مال کے اہلکار اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں اور جائیداد (اراضی) کی خریدوفروخت سے حاصل ہونے والی ہر سال اربوں روپے کی آمدنی سرکاری خزانے میں جمع کروائی جاتی ہے۔ پٹوار خانہ عوام کی ’خلوص ِدل‘ خدمت کر رہا ہے اور کمپیوٹروں کی آمد سے قبل جائیداد کا ریکارڈ انتہائی باریک بینی (احساس ِذمہ داری) سے محفوظ اور مرتب رکھا جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج صورتحال قطعی مختلف ہوتی اور کمپیوٹرائزیشن کا عمل ایک قدم بھی آگے نہ بڑھا ہوتا۔ جہاں تک کسی پٹوارخانے سے کوائف کے حصول میں مشکلات کا تعلق ہے تو اِس کی بنیادی وجہ ’کام کا بوجھ‘ ہے اور عوام کی نظروں میں پٹواری صرف ایک ہی کام کرتا ہے جبکہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے پٹواری کے فرائض منصبی کئی ایک ہیں اور پٹواری کو حکومت کی جانب سے اِس کی محنت کا خاطرخواہ صلہ بھی نہیں ملتا۔ نظرانداز پٹواری ایک ایسا مظلوم سرکاری ملازم ہے جو اپنے فرائض منصبی اور ذمہ داریوں میں خودمختار نہیں اور نہ ہی اِس کی کارکردگی سامنے آتی ہے بلکہ اِس کی خدمات کئی ایک محکموں کے ساتھ مربوط ہیں اور ہر ایک اعلیٰ و بالا کو خوش کرنا یقینا آسان نہیں۔ یہ پٹوارخانے کی اجتماعی ذہانت و محنت ہی ہے جس کی وجہ سے ’لینڈ ریکارڈ‘ آج تک محفوظ بھی ہے اور اِس میں غلطی یا جعل سازی کی گنجائش بھی نسبتاً کم ہے۔ حکومت کی جانب سے ’لینڈ ریکارڈ‘ کی کمپیوٹرائزیشن کا عمل جاری ہے اور جب کمپیوٹرائزیشن مکمل ہو جائے گی اور عوام کا مکمل انحصار کمپیوٹرائزڈ لینڈ ریکارڈ پر گا تو اُس وقت پیدا ہونے والی پیچیدگیوں اور الجھنوں کو حل کرنے کیلئے پٹوار خانے کی یاد آئے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ پٹواریوں پر کرپشن (رشوت ستانی) کا الزام ہے لیکن اِس بات کی ضمانت کون دے گا کہ کمپیوٹرائزیشن کے بعد جائیداد (اراضی) کی تفصیلات دینے والے سروس سنٹروں میں رشوت ادا نہیں کرنا پڑے گی؟ درحقیقت ’لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزیشن‘ کے ذریعے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا رہی ہے اور ملک کے بااثر طبقات بالخصوص سیاسی اشرافیہ کبھی بھی نہیں چاہے گی لینڈ ریکارڈ شفافیت سے مرتب ہو کیونکہ اِسی ’لینڈ ریکارڈ‘ پر سیاست اور کمائی ہوتی ہے۔ پٹواریوں کے بارے میں رشوت ستانی کے بعد دوسرا عمومی تاثر یہ ہے کہ پٹوارخانوں میں موجود لینڈ ریکارڈ دانستہ طور پر غلطیوں پر مبنی رہتا ہے‘ جس کی وجہ سے کمپیوٹرائزیشن کی رفتار انتہائی سست ہے۔ اگر حقیقت میں اور عملاً پٹوارخانے میں موجود لینڈ ریکارڈ غلطیوں کا مجموعہ ہے تو کمپیوٹرائزیشن سرے سے ممکن ہی نہ ہوتی۔ عوام کو سوشل میڈیا اور میڈیا کے ذریعے تاثر دیا جا رہا ہے کہ پٹوارخانہ غلطیوں کا مجموعہ ہے اگر ایسا ہوتا تو پہلا احتجاج عوام کی جانب سے سامنے آتا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ جو کوئی اور جب کبھی پٹوارخانے سے رجوع کرتا ہے اُسے متعلقہ کوائف اور خدمات فراہم کی جاتی ہیں اور اگر ایسا نہ ہوتا تو قیام پاکستان سے پہلے مرتب ہونے والا یہ نظام قیام پاکستان کے 70 سال بعد تک عملاً رواں دواں اور مفید نہ ہوتا۔ جہاں تک جائیداد میں خواتین کی وراثت کا تعلق ہے تو اِس میں پیدا ہونے والی خرابیوں کی وجہ پٹوارخانہ نہیں بلکہ حکومتی فیصلہ ساز ہیں جنہوں نے نمبرداری اور چوکیداری نظام کو محکمہئ مال سے الگ کیا جبکہ نمبرداری اور چوکیداری میں ہر وارث کو اُس کا حق ملتا تھا اور وراثتی خاکہ نمبردار اور چوکیدار درج کرنے کے علاؤہ اُس کی تصدیق بھی کیا کرتے تھے لیکن اب یہ دونوں طریق ختم کر دیئے گئے ہیں۔ فیصلہ ہونا چاہئے کہ قصور کس کا ہے اور مجرم کسے ٹھہرایا جانا چاہئے۔ پٹواریان و قانونگوئیان کی نمائندہ تنظیمیں کمپیوٹرائزیشن کے عمل میں رکاوٹ نہیں بلکہ جلد از جلد اِس کمپیوٹرائزیشن کے عمل کی تکمیل چاہتی ہیں جس کے بعد بھی پٹواریان و قانونگوئیان کے پاس موجود لینڈ ریکارڈ محفوظ رہے گا اور ’لینڈ ریوینیو ایکٹ‘ کے تحت پٹواری و قانون گو ماتحت عملے کے ساتھ اپنے فرائض منصبی سرانجام دیتے رہیں گے اور کمپیوٹرائزیشن کی بدولت لینڈ ریکارڈ کی وجہ سے پٹواریوں پر اضافی ذمہ داریوں (کار ِبیکار) کا بوجھ بھی کم ہو جائے گی۔“ پٹواریوں و قانونگوئیان کے نکتہئ نظر سے رجسٹری کے ذریعے جائیداد کی خریدوفروخت کے عمل میں سرکاری خزانے کو نقصان ہو رہا ہے جبکہ رشوت ستانی (بدعنوانی) بھی جاری ہے اور بطور صارفین عوام کو پہلے سے زیادہ وقت اُور مالی وسائل خرچ کرنے پڑ رہے ہیں۔ اِس میں سٹامپ (عرضی) نویس‘ رجسٹری محرر‘ سب رجسٹرار اور رجسٹرار کے علاؤہ فوٹوگرافر بھی اپنی خدمات کی الگ الگ شرح سے قیمت وصول کر رہے ہیں۔ حرف آخر یہ ہے کہ لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرئزیشن کے جاری عمل اور رجسٹری کے ذریعے جائیداد (اراضی) کی خریدوفروخت سے جس بدعنوانی (کرپشن) کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘اس میں کامیابی ملنا یقینی نہیں مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اصلاحات کا عمل جس قدر تیزی کے ساتھ انجام کو پہنچ جائے اس کے نتائج اتنے ہی بہتر سامنے آتے ہیں اس وقت اصلاحات کا عمل مختلف شعبوں میں جاری ہے تاہم سست روی کے باعث اس کے ثمرات سامنے آنے میں وقت لگ رہا ہے۔