ٹیکسوں میں کمی کی نوید۔۔۔

وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے سینٹ میں وفاقی بجٹ پر بحث سمیٹتے ہوئے انکشاف کہا ہے کہ حکومت کے پاس ڈیڑھ کروڑ ٹیکس نادہندگان کا ڈیٹا آگیا ہے، انہیں ٹیکس نیٹ میں لایاجائے گا۔کم آمدنی والے طبقے کو روزمرہ ضرورت کی اشیاء پر سبسڈی دی جائے گی ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ کورونا کے باوجود پوری دنیا میں گروتھ ریٹ 2.5 فیصد اور پاکستان میں معیشت کی گروتھ 4 فیصد پر آگئی۔کسانوں کو زرعی پیداوار میں اضافے کے لئے اڑھائی لاکھ روپے بلا سودقرضہ دیاجائے گا۔لوگوں کو کاروبار کیلئے بھی بلاسود قرضہ دیں گے نوجوانوں کو ہنر سکھائیں گے تاکہ وہ اپنے اور دوسرے بے روزگار لوگوں کے بھی ذریعہ معاش پیدا کریں۔ دودھ، دہی، درآمد شدہ انڈوں، آٹے اور اسکی مصنوعات پر ٹیکس ختم کردیا گیا۔زراعت کوفروغ دے کر گندم، چینی اوردالین برآمد کریں گے زرعی شعبے کیلئے پچیس ارب کااضافی فنڈ رکھا گیا ہے۔جبکہ صنعتی شعبے کو 45ارب کی مراعات دی جارہی ہیں وزیرخزانہ نے بتایاکہ آئی ایم ایف نے حالیہ بجٹ میں 700 ارب روپے کے ٹیکس لگانے کا مطالبہ کیا تھا جسے حکومت نے مسترد کردیا۔دوسری جانب قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے بجٹ کو  خون چوس، ہڈی توڑاور زکوٹا جن کا بنایا ہوابجٹ قرار دیا ہے۔وزیرخزانہ کی طرف سے عام آدمی کی روزمرہ ضرورت کی اشیاء پر ٹیکس ختم کرنے کا اعلان خوش آئند ہے تاہم اس کے ثمرات تب ہی عوام تک پہنچ پائیں گے جب آٹا، چینی، دودھ، دہی، دال، چاول، گھی اور روزانہ استعمال کی دیگر اشیاء کی قیمتوں میں کمی لائی جائے گی۔پٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہر مہینے اضافہ ہورہا ہے۔ تیل مہنگا ہونے سے کرائے بڑھ جاتے ہیں جس سے ہر چیز کی قیمت متاثر ہوتی ہے اسی طرح بجلی اور گیس مہنگی ہونے کے منفی اثرات بھی روزمرہ استعمال کی ہرچیزکی قیمتوں پر پڑتے ہیں۔ جب کسی چیز کی پیداواری لاگت 20فیصد بڑھ جائے تو قیمتوں میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہوتا ہے۔مہنگائی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ دہرے ٹیکسوں کا نظام ہے۔انسانی ضرورت کی ہر چیز پر سیلز ٹیکس عائد ہے۔ بجلی کے بلوں میں  عوام دس مختلف اقسام کے ٹیکس ادا کرتے ہیں جوچیزیں بجلی استعمال کرکے پیدا کی جاتی ہیں انہی مصنوعات کو تیار کرنے والوں، ہول سیلرز، پرچون فروشوں اور صارفین سے دوبارہ سیلز ٹیکس وصول کیاجاتاہے۔پاکستان کے شہری ضرورت کی جو بھی چیز استعمال کرتے ہیں ان پر آٹھ دس اقسام کے ٹیکس ادا کرتے ہیں یوں اس چیز پر ٹیکس کی شرح اصل قیمت سے دوگنی ہوجاتی ہے۔ وزیرخزانہ نے ڈیڑھ کروڑ نئے ٹیکس نادہندگان کی تفصیلات حاصل کرنے کا انکشاف کیا ہے۔ ان میں یقینا بڑے بڑے جاگیر دار، صنعت کار، تاجر اور برآمد کنندگان بھی شامل ہوں گے۔ جن سے ٹیکس وصول کرنے کی  ماضی میں کسی حکومت کو جرات نہیں ہوئی۔ کیونکہ قومی ایوانوں، فیصلہ ساز، ٹیکس لگانے اور وصول کرنے والے اداروں میں بھی یہی لوگ موجودہیں۔اور انہوں نے ہر دور حکومت میں اپنے مفادات کا کامیابی سے دفاع کیا اور خود کو ٹیکس نیٹ سے بچائے رکھا۔ اگر پاکستان کے بڑے بڑے جاگیر داروں، سرمایہ داروں، کارخانے داروں، صنعت کاروں، تاجروں اور برآمدکنندگان پر ان کی مصنوعات اور آمدن کے تناسب سے ٹیکس لگایاجائے تو عوام پراضافی ٹیکس لگانے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ عام تاثر یہ ہے کہ کسی چیز کی قیمت ایک بار بڑھ جائے پھر اس میں کمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وزیرخزانہ کے بقول اشیائے ضروریہ پر عائد ٹیکسوں میں کمی کی گئی ہے تو ان کی قیمتوں میں بھی اسی تناسب سے کمی ہونی چاہئے۔ اگر عام آدمی کی ضرورت کی اشیاء کے دام نہیں گرتے تو عوام کیلئے بجٹ کو عوام دوست کہنے، ریلیف یا سبسڈی دینے اور ان کا معیار زندگی بہتر بنانے کی ساری باتیں بے معنی ہیں۔ عوامی مینڈیٹ کے ساتھ منتخب حکومت ریاست کی سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے۔ اسے عوامی طاقت کے بل بوتے پر گرانفروشوں، ذخیرہ اندوزوں، قبضہ مافیا اور مصنوعی گرانی پیدا کرکے عوام کو لوٹنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہئے۔