پشاور کی سرتاج عمارت ’گورگٹھڑی‘ کا ’مغربی دروازہ‘ (22 جون شام 7 بجے سے) آمدورفت کیلئے کھول دیا گیا ہے جسے 2018ء میں ضروری تعمیرومرمت اور بحالی کیلئے بند کیا گیا تھا۔ اندرون شہر رہنے والوں کی بڑی تعداد جن میں متصل یونین کونسلوں (گنج‘ کریم پورہ‘ لاہوری) کے علاوہ بیرون شہر کی یونین کونسلیں (شیخ آباد‘ گلبہار‘ سکندرپورہ‘ ہشت نگری) شامل ہیں سے بڑی تعداد میں صبح کی سیر اور شام کی چہل قدمی کے دلدادہ گورگٹھڑی کا رخ کرتے ہیں‘ جس کی رونقیں دیدنی ہوتی ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ گورگٹھڑی اور سیٹھی ہاؤس (بازار کلاں‘ محلہ سیٹھیان) کی تعمیرومرمت اور بحالی کیلئے 2 کروڑ روپے کی لاگت سے ترقیاتی کام شروع کیا گیا جس کی تکمیل سے گورگٹھڑی کے مغربی دروازے کے اوپر بنے اُس چبوترے (کمروں اور راہداری پر مبنی ڈھانچے) کی عمر میں اضافہ ہو گیا ہے‘ جو وقت کے ساتھ زمین میں دھنس رہا تھا اور اِس کی دیواروں میں دراڑیں ہر دن زیادہ ہو رہی تھیں۔’گورگٹھڑی‘ صرف معروف مقام نہیں بلکہ مذہبی و ثقافتی حوالوں سے جنوب مشرق ایشیا میں خاص شہرت رکھتا ہے لیکن قیام پاکستان کے بعد یہ سمٹ کر ایک عمارت (25 ہزار 600 مربع میٹرز) کے احاطے میں تبدیل ہو چکا ہے اور اگرچہ اِس کی عالمی شہرت و شناخت کا کماحقہ ادراک کرنے کیلئے اقوام متحدہ کی ثقافتی تنظیم ’یونیسکو‘ کو توجہ دلائی گئی ہے اور اُمید ہے کہ اِسے یونیسکو کی جانب سے ’محفوظ قرار دیئے گئے عالمی اثاثہ جات‘ کی فہرست میں شمار کر لیا جائے گا لیکن اغیار کی قدرشناسی کے مقابلے اپنوں کی لاتعلقی اور گورگٹھڑی کے بارے میں سیاسی فیصلہ سازوں کے روئیوں میں تبدیلی یکساں اہم و ضروری ہے! گورگٹھڑی کی تاریخی اہمیت کا اندازہ اِس سند سے بخوبی اور باآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ کسی بھی زاویئے سے پشاور کا تذکرہ یا سیاحت کرنے والے ہر مؤرخ اور ہر سیاح نے اپنی تحریروں میں اِس کا حوالہ دیا ہے۔ ساتویں صدی میں چینی سیاح زوان زانگ (Xuanzang) سے لیکر مغل بادشاہ بابر ظہیر الدین بابر کے بابرنامہ‘ برطانوی راج کے پہلے ’آرکیالوجیکل سرویئر‘ میجر جنرل الیگزینڈر کننگھم کی کھوج اور پروفیسر ڈاکٹر احمد حسن دانی (وفات 2009ء) کی علمی تحقیق کے مطابق گورگٹھڑی کے مقام پر پانچویں صدی قبل مسیح سے تعلق رکھنے والے ’بدھ مت‘ کے بانی گوتما بدھا سے منسوب تبرکات رکھی گئی تھیں اور اِس مقام پر بدھ مذہب کی عبادت گاہ بھی قائم تھی۔ 16ویں صدی میں مغل بادشاہ شہاب الدین خرم المعروف شاہ جہان (وفات 1666ء) کی بیٹی جہان آرأ بیگم (وفات 1681ء) جب پشاور تشریف لائیں تو اُنہوں نے گورگٹھڑی کے مقام پر ایک چبوترا تعمیر کروایا اور اِس عمارت کے اردگرد مضبوط و بلند چاردیواری کے ساتھ چاروں اطراف میں کمرے بنوائے اور اِسے سرائے (مسافروں کے قیام) کیلئے وقف کر دی۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخی کتب میں گورگٹھڑی کا ایک نام ’سرائے جہان آباد‘ بھی ملتا ہے۔ اُنہی کے دور میں مسافروں کے آرام و ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے گورگٹھڑی کے اندر ایک جامع مسجد‘ تالاب اور دو کنویں بنوائے گئے۔ گورگٹھڑی مغلیہ فن تعمیر اور ذوق کا ایسا حسین شاہکار تھا کہ سکھ دور کے گورنر‘ جنرل پاؤلو ایوٹیبل (1838-1842ء) جب پشاور آئے تو اُنہوں نے گورگٹھڑی ہی کے مقام کو اپنی رہائش کیلئے منتخب کیا اور اِسے گورنر ہاؤس کا درجہ دیا‘گورگٹھڑی کے دونوں داخلی دروازوں (مشرقی بہ طرف گنج و لاہوری گیٹ اور مغربی بہ طرف گھنٹہ گھر و مسجد مہابت خان) پر کثیرالمنزلہ چبوترے بنائے گئے جن کی تعمیر میں چھوٹی (وزیری) اینٹ پتھر‘ چونے اور پٹ سن وغیرہ کا استعمال کیا گیا‘ دراصل گورگٹھڑی مختلف ادوار میں ہونے والی تجاوزات کا مرکز رہی اور یہی وجہ ہے کہ اِس کا جنوبی حصہ جو کہ مشرقی گیٹ سے شروع ہو کر مغربی گیٹ پر اختتام پذیر ہوتا ہے اُجڑے دیار کا منظر پیش کرتا ہے اور یہ محروم توجہ ہے۔ اِس حصے میں موجود مغلیہ عہد کے یادگار کمرے بھی مسمار کر دیئے گئے جبکہ عمارت کے چاروں کونوں پر موجود کثیرالمنزلہ مینار‘ جن سے عمارت کی حفاظت چوکیوں کا کام بھی لیا جاتا تھا مسمار کر دی گئیں اور تاحال اُن کا نام و نشان نہیں۔ گورگٹھڑی کے مقام پر پشاور کی تاریخ معلوم کرنے کے لئے مختلف ادوار میں کھدائیاں کی گئیں۔ اِس سلسلے میں پہلی کھدائی 1992-93ء‘ دوسری کھدائی 1995-9ء اور تیسری کھدائی 2003ء سے 2007ء تک کی گئی۔ جن سے برآمد ہونے والی چند نوادرات گورگٹھڑی کے احاطے میں قائم کئے گئے ’پشاور شہر کے عجائب گھر (سٹی میوزیم)‘ میں نمائش کے لئے رکھے گئے۔ یہ عجائب گھر گورگٹھڑی کے شمالی حصے میں اُس دو منزلہ عمارت میں قائم کیا گیا ہے جو برطانوی عہد میں پولیس اہلکاروں کی رہائش کے لئے تعمیر کی گئی تھی اور یہاں شہر کا پہلا آگ بجھانے کا مرکز (فائر بریگیڈ اسٹیشن) بھی تعمیر کیا گیا تھا۔ سال 2002ء میں گورگٹھڑی سے ’کوتوالی پولیس سٹیشن‘ قریب ہی ایک نئی عمارت میں منتقل کر دیا گیا اور 2002ء سے گورگٹھڑی سے استفادہ ایک پبلک پارک کے طور پر کیا جانے لگا۔ اِس عمارت کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ’ٹاؤن ون (بلدیاتی ادارے)‘ کو سونپ دی گئی جسے بعدازاں مکمل طور پر محکمہئ آثار قدیمہ کے حوالے کر دیا گیا۔گورگٹھڑی گنجان آبادی کے وسط میں ہے اور یہاں پبلک پارک کے قیام (2002ء) سے آج (2021ء) تک کے سفر میں اہل علاقہ اور محکمہئ آثار قدیمہ کے اہلکاروں کے درمیان مثالی تعلق موجود نہیں اور دونوں کو ایک دوسرے سے تحفظات ہیں۔ چونکہ گورگٹھری کی پوری عمارت آثار قدیمہ سے متعلق 2016ء کے قانون (Antiquities Act) کی رو سے محفوظ قرار دی گئی ہے اِس لئے وہاں کسی پبلک پارک کے قیام (عوام و خواص کی بلا روک ٹوک آمدورفت) اور چوبیس گھنٹے (دن رات) اِس سے استفادہ ممکن نہیں رہا۔ کورونا وبا کی وجہ سے گورگٹھڑی کو دیگر پبلک پارکس کی طرح بند کر دیا گیا تھا تاہم عیدالفطر کے بعد جب پبلک پارکس کی رونقیں بحال کرنے کا اعلان ہوا تو اِس فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے گورگٹھڑی کو عوام الناس کیلئے کھولنے میں کئی ہفتے لگے۔ اندرون پشاور کے باسی بالخصوص گورگٹھڑی سے ملحقہ 3 یونین کونسلوں (گنج‘ کریم پورہ اور لاہوری) کے رہنے والوں کا مطالبہ ہے کہ مغل بادشاہ شاہ جہان کی صاحبزادی جہان آرأ بیگم نے جو باغ باغیچے‘ پانی کے تالاب و کنویں اور سرائے خانہ تعمیر کئے تھے اُنہیں اصل حالت میں بحال کیا جائے اور گورگٹھڑی کے احاطے میں تاریخی نوعیت کے مقامات بشمول کھدائی کی محفوظ کی گئی جگہ‘ سٹی میوزیم‘ شیو مندر اور مشرقی و مغربی دروازوں کے چبوتروں کے علاؤہ محدود رقبے پر چار سبزہ زاروں کے رقبے اور شجرکاری کے ذریعے اِس مقام کی خوبصورتی کو (عہدرفتہ کی طرح بحال کرتے ہوئے) چارچاند لگائے جائیں۔