امریکی”ڈو مور“کے حکمناموں پر پاکستان کے سابقہ حکمرانوں کی جانب سے سرِتسلیم خم کرنے سے لے کر پاکستان کے موجودہ وزیرِاعظم کے امریکہ کو ”ابسلوٹلی ناٹ“کے واضح جواب تک کے درمیان پاکستان نے بہت کچھ کھویا ہے۔ محتاط اعداد وشمار کے مطابق پاکستان امریکی جنگ میں شامل ہونے کے بعد سے ابتک 70ہزار سے زائد شہریوں کی زندگیاں ہار چکا ہے۔ اس دوران جہاں پاکستان کو بھرپور جانی نقصان اٹھانا پڑا وہاں پاکستان کو معاشی طور پر بھی تاریخی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔امریکی جنگ میں شرکت سے پاکستان کو اپنی عزت نفس کھونے کی صورت میں شدید ترین نقصان ملتا رہا ہے، پاکستان اُصولی طور پر تو امریکہ کا حلیف رہا لیکن امریکہ پاکستان کو جنگی حلیف کی بجائے ایک اُجرتی شراکت دار کے طور پر مخاطب کرتا رہا، جبکہ پاکستان کے حکمران امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے میں مگن رہے۔ سال 2001میں جب امریکہ نے افغانستان میں اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کیلئے جنگ شروع کرنے کا فیصلہ کیا تو پاکستان کو حریف یا حلیف بننے کے لیے بھرپور دھمکی دی جس کے سامنے پاکستان کی اُس وقت کی پرویز مشرف حکومت ایک ہی پل میں ڈھیر ہوگئی تھی اور پاکستان امریکہ کا حلیف بن گیا تھا۔ پرویز مشرف سے لے کر 2003میں عام انتخابات میں بننے والی عوامی حکومتوں تک سب نے امریکی جنگ میں مکمل مستقل مزاجی سے حصہ لیا اور یہی روش 2008کے انتخابات کے بعد بننے والی حکومتوں نے بھی اختیار کیے رکھی، یہ وہ دور تھا جب مشہورِ زمانہ وکی لیکس سامنے آئیں تھیں جس میں اس وقت کے پاکستان کے حکمرانوں کے قابلِ مذمت رویوں کے بارے میں کہا گیا تھا۔ پاکستان کے اُس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے حوالے یہ خبر سامنے آئی تھی کہ انہوں امریکی سفیر این پیٹرسن کو کہا تھا کہ انہیں ڈرون حملوں سے کوئی مسئلہ نہیں، امریکہ ڈرون حملے اُس وقت تک کرتا رہے جب تک ہدف نشانہ نہیں بنتا، اسی طرح کا موقف سابق صدر ٓصف علی زرداری کے حوالے سے بھی سامنے آیا تھا کہ امریکہ ڈرون حملے کرتا رہے۔ پاکستانی حکمرانوں کے حوالے سے یہ انکشافات جب لیکس کی صورت میں سامنے آئے تو پاکستانی میڈیا اورعوامی سطح پر اس کی شدید مذمت اور مخالفت کی گئی۔ امریکی ڈرون حملوں کا تسلسل 2013کی عام انتخابات میں بننے والی نواز شریف کی حکومت میں جاری رہا،نوازشریف کی حکومت نے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی مشاور ت سے پاکستان میں دہشتگردی پر قابو پانے کیلئے پاکستان میں برسرِپیکار تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ کیا تو مذاکرات کے شروع ہونے سے پہلے ہی امریکہ کی جانب سے ڈرون حملہ کیا گیا جس کے بعد حکومت اور تحریک طالبان کے مابین مذاکرات منقطع ہوگئے تھے۔ واضح رہے کہ سابق امریکی صدر باراک ابامہ امریکی ڈرونز کو امریکہ کی جنگ میں سب سے موثر ترین ہتھیار کے طور پر شمار کرتے ہیں۔دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ میں ایک طرف افغانستان میں امریکہ اور طالبان کے درمیان جنگ جاری رہی تو دوسری طرف پاکستان بھی پوری طرح اس جنگ لپیٹ میں آگیا، آئے روز خودکش اور بم دھماکے ہوتے رہے، ان حملوں سے پاکستان کا کوئی بھی حصہ محفوظ نہ رہ سکا، مذکورہ حالات نے پاکستان میں امریکہ مخالف سوچ کو تقویت دینا شروع کی اور پاکستان میں واضح طور پر پاکستان کی امریکی جنگ میں بطورِ شراکت دار کی حصہ داری کی مخالفت کی جانے لگی۔ 2011میں سرحد پار سے سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ ہوا جس میں متعدد سکیورٹی اہلکار شہید ہوگئے تھے، اس حملے کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات واضح طور پر خراب ہوگئے تھے، جس کے بعد وقتی طور پر پاکستان نے نیٹو کی سپلائی لائن بھی بلاک کردی تھی۔اب افغانستان سے امریکی انخلاء کے شروع ہونے کے بعد حالات تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتے نظر آرہے ہیں، طالبان تیزی کے ساتھ افغانستان کے اضلاع پر قبضہ کرتے جا رہے ہیں اور توقعات کے برعکس افغانستان کی سکیورٹی فورسز طالبان کے سامنے سرینڈر کرتی جا رہی ہیں، اس صورتحال میں پاکستان پر امریکہ کے بڑھتے دباؤ کے باوجود وزیرِ اعظم کی جانب سے امریکہ کو لال جھنڈی دکھانے کے بعد پاکستان ایک نئے دوراہے پر کھڑا ہوگیا ہے جہاں اس کیلئے مشکل چیلنجز کے ساتھ ساتھ نت نئے مواقع بھی موجود ہیں۔ امریکہ پاکستان پر ہر طرح سے دباؤ بڑھاتا رہے گا، یہ مشکلات اور چیلنجز IMF، ورلڈ بنک اور FATFکی صورت میں بھی ہوں گی اور طرح طرح کی پابندیوں کی صورت میں بھی ہوں گی، لیکن پاکستان کی لیڈرشپ اگر امریکی دباؤ کا مقابلہ کرسکی تو اس کے بدلے پاکستان کو اپنی حقیقی خودمختاری مل جائے گی جو کہ ماضی میں ایک خواب ہی رہی ہے۔