سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی روشنی میں خیبر پختونخوا حکومت نے ضم اضلاع سمیت پورے صوبے میں رواں سال ستمبر میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہے۔ صوبائی حکومت نے اس سلسلے میں تیاریاں پہلے ہی شروع کردی تھیں۔ ضم اضلاع کے عوام کو بلدیاتی نظام کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کیلئے خیبر، باجوڑ، مہمند، اورکزئی، کرم، شمالی اور جنوبی وزیرستان میں 120بلدیاتی سفیر مقرر کئے ہیں جن میں 89مرد اور 31خواتین شامل ہیں بلدیاتی سفیروں کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ گھروں، حجروں، عوامی مقامات، سکولوں اور کالجوں میں جاکر بلدیاتی نظام کے ڈھانچے، اس کے فوائد اور بلدیاتی اداروں کے ذریعے نچلی سطح پر عوامی نمائندگی کے طریقہ کار کے بارے میں عوام کو آگاہی فراہم کریں۔صوبے میں بلدیاتی اداروں کی مدت ڈیڑھ سال پہلے ختم ہوگئی تھی۔ صوبائی حکومت نے ضم اضلاع سمیت پورے صوبے میں ایک ساتھ بلدیاتی انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا جس کی وجہ سے ان انتخابات کے انعقاد میں تاخیر ہوئی۔کیونکہ ضم اضلاع میں بلدیاتی اداروں کی حلقہ بندیوں کیلئے وقت درکار تھا۔ جس کی وجہ سے صوبائی حکومت کو الیکشن کمیشن
سے بار بار مہلت لینی پڑی۔ اب جبکہ حلقہ بندیوں کا کام تقریباًمکمل ہوچکا ہے۔ اور صوبائی حکومت نے بھی منجمد بلدیاتی نظام کو دوبارہ فعال بنانے کا فیصلہ کیا ہے لیکن انتخابات کے طریقہ کار کی وجہ سے بلدیاتی اداروں کی بحالی میں تاخیر خارج از امکان نہیں۔حکومت انتخابی نظام میں اصلاحات لانا چاہتی ہے اور بیرون ملک مقیم 90لاکھ پاکستانیوں کو بلدیات سے لے کر صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے کا حق دینا چاہتی ہے ساتھ ہی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال پر زور دے رہی ہے مگر الیکشن کمیشن اور اپوزیشن جماعتیں اس تجویز سے متفق دکھائی نہیں دیتیں۔ اور قومی اتفاق رائے کے بغیر نئے طریقہ کار کے تحت انتخابات کے انعقاد سے نئے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے سات قبائلی اضلاع کو قومی اور صوبائی اسمبلی میں نمائندگی مل چکی ہے لیکن نچلی سطح پر عوامی مسائل کے حل کے لئے بلدیاتی اداروں کا قیام ناگزیر ہوچکا ہے۔ صاف پانی کی فراہمی، کوڑا کرکٹ اٹھانے، گلیوں کی پختگی، صفائی اور مرمت، نالیوں کی صفائی، برتھ اورڈیتھ سرٹیفیکیٹ اور ڈومیسائل کی تصدیق سمیت بلدیاتی نمائندوں کی سینکڑوں ذمہ داریاں ہیں۔بلدیاتی اداروں کے نمائندے دیہات کی سطح پرچنے جاتے ہیں اس لئے انہیں اپنے علاقے کے حالات، واقعات اور مسائل کا بخوبی ادراک ہوتا ہے اور ان مسائل کے فوری حل کے علاوہ امن و امان کے قیام میں بھی وہ کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اور یہ سارے کام ایم این اے، ایم پی اے اور سینٹرز کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔نہ ہی عام لوگوں کو ایم پی ایز اور ایم این ایز تک رسائی حاصل ہے۔ بلدیاتی اداروں کی عدم موجودگی میں دیہی سطح پر عوام کے چھوٹے چھوٹے مسائل طویل عرصے سے حل طلب ہیں اور فنڈز منجمد ہونے کی وجہ سے شہری سہولیات کی فراہمی کا کام بھی ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے۔بلدیاتی اداروں کو جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے۔ قبائلی اضلاع میں قیام پاکستان کے بعد پہلی بار نچلی سطح پرجمہوری اداروں کا قیام عمل میں آنے والا ہے۔ قبائلی عوام کی جمہوری نظام سے واقفیت پیدا کرنے اور اس نظام کے ثمرات عوام تک پہنچانے کیلئے بھی بلدیاتی اداروں کا قیام ناگزیر ہے۔صوبائی حکومت کی مقرر کردہ ٹائم لائن کے مطابق انتخابات کا انعقاد پرانے طریقہ کار کے مطابق ہی ہونا چاہئے تاکہ اس میں مزید تاخیر نہ ہو۔ قابل اور خدمت کے جذبے سے سرشار لوگ ان اداروں میں آئیں اور عوام کی خدمت کریں‘جو لوگ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے مرتکب پائے جائیں انہیں انتخابات میں حصہ لینے کے لئے نااہل قرار دیا جائے۔ اپنے حلقے اور عوام کی خدمت کا جذبہ رکھنے والے قابل لوگ جمہوریت کی نرسریوں میں تربیت پائیں گے تو بلدیاتی نظام بھی مضبوط ہوگا۔ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہوں گے اور سیاسی جماعتوں کو بھی صوبائی و قومی اسمبلی کیلئے مناسب امیدوار میسر آئیں گے۔ انتخابی عمل کے موثر اور قابل اعتماد ہونے سے ہی جمہوریت پر عوام کا اعتماد بڑھے گا اور بلدیاتی انتخابات وہ اکائی ہے جس کے ذریعے انتخابی عمل کی آزمائش ہو سکتی ہے۔