پاکستانیت 

 صرف یہی نہیں کہ آج کی دنیا ترقی اور سرمائے کی بنیاد پر تقسیم ہے بلکہ اِس ترقی اور سرمائے سے پیدا ہونے والے وسائل بروئے کار لاتے ہوئے عالمی سطح پر سیاسی حاکمیت و اجارہ داری قائم کرنے کی کوششیں بھی مسلسل جاری ہیں اور افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء سے پیدا ہونے والے ماحول میں لگ رہا ہے کہ دنیا ’تیسری سرد جنگ‘ کے دہانے پر پہنچ چکی ہے کیونکہ ایسی کسی جنگ کے بغیر روس اور چین کو اُن کی سرحدوں (داخلی مسائل) تک محدود رکھنے کی کوئی دوسری ایسی صورت نہیں کہ جس میں براہ راست فوجی تصادم بھی نہ ہو اور جس کے ماضی کی طرح نتائج بھی امریکہ کے حق میں خاطرخواہ رہیں۔ تکنیکی طور پر ’سرد جنگ‘ کی امریکی حکمت عملی کے 5 جز رہے ہیں جن میں کسی ملک یا اُس کے اتحادیوں کی اقتصادیات‘ سیاسیات‘ دفاع‘ نظریات اور اخلاقیات کو کمزور کیا جاتا ہے۔ اِس تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے عالمی طاقتوں کے درمیان اتفاق رائے سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کے اندر اور ہمسایہ ممالک آنے والے دنوں میں ایک اور سرد جنگ کا میدان ہوں گے! اِس تصور کو سمجھنے کیلئے عالمی واقعات اور ملاقاتوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ایک جیسی سوچ رکھنے والے سرمایہ دار ممالک کی نمائندہ تنظیم جس میں کینیڈا‘ فرانس‘ جرمنی‘ اٹلی‘ جاپان‘ برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں‘ اور اِس تنظیم کو ’گروپ آف سیون المعروف جی سیون (G7)‘ کے نام سے جانا جاتا ہے کا قیام 1973ء میں ہوا تاہم اِس کے رکن ممالک کی تعداد میں کمی بیشی ہوتی رہی جو کبھی پانچ‘ چھ اور آٹھ بھی رہے! اِس تنظیم کی اہمیت کا اندازہ 2 باتوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ ایک تو یہ کہ جی سیون تنظیم کے رکن ممالک دنیا کی کل دولت کے 60 فیصد حصے کے مالک ہیں اور دوسرا ’عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف)‘ کی حکمت عملیاں بھی اِنہی ممالک و تنظیم کی ترجیحات کے مطابق طے ہوتی ہیں۔ جی سیون تنظیم کے حالیہ 47واں اجلاس (گیارہ سے تیرہ جون) کی میزبانی برطانیہ نے کی‘ جس کے بارے میں جاری ہونے والے اعلامیے میں کورونا وبا سے نمٹنے کیلئے عالمی سطح پر تعاون کے فروغ کی ضرورت پر زور دیا گیا لیکن مذکورہ اعلامیے میں کچھ ایسی باتیں بھی ہیں‘ جنہیں زیادہ کھول کر بیان نہیں کیا گیا لیکن اُن کے مطالب معمولی غور کرنے سے باآسانی سمجھ آ سکتے ہیں۔ 13 جون کو جاری ہونے ’جی سیون اجلاس بارے اعلامیے‘ کے ذریعے رکن ممالک کی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ ”ہم جمہوریت کی طاقت‘ آزادی‘ مساوات اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہوئے انسانی حقوق کا احترام چاہتے ہیں‘ جو موجودہ دور کا سب سے بڑا سوال اور مسئلہ (چیلنج) ہے۔“ جی سیون اجلاس میں سربراہان مملکت کے ایک دوسرے سے ’پے در پے‘ اجلاس ہوئے جن پر امریکہ کا نکتہئ نظر حاوی رہا۔ امریکہ کی جانب سے دنیا کو ”چین روس خطرے“ سے خبردار کیا گیا ہے اُور یوں جی سیون کے اہداف میں جہاں موسمیاتی تبدیلیاں اور کورونا وبا شامل ہیں وہیں سرفہرست مدعا چین اور روس ہیں‘ جن سے نمٹنے کیلئے براہ راست حملے تو نہیں کئے جائیں گے لیکن چین اور روس کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو روکنے کیلئے پاکستان جیسے امریکہ و برطانیہ کے اتحادی ممالک پر دباؤ بڑھے گا۔ ذہن نشین رہے کہ پہلی سرد جنگ اُس وقت ختم ہوئی تھی جب روس (اُس وقت کی متحدہ قوت سوویت یونین) اور وارسا کے درمیان ہوا معاہدہ منہدم ہوا‘ جس کے لئے مغربی دنیا بالخصوص امریکہ کی کوششیں کامیاب ہوئیں کہ اُنہوں نے کیمونزم کو نیچا دکھا دیا۔ دوسری سرد جنگ کا دور 1979ء سے 1985ء کے درمیان تھا جب روس نے افغانستان میں مداخلت کی اور امریکہ نے روس کے خلاف عسکریت پسندوں کی مدد کی لیکن صرف افغانستان ہی نہیں بلکہ روس کو نکاراگوا‘ کمبوڈیا کے محاذوں پر بھی سفارتی شکست ہوئی جبکہ امریکہ اور اِس کے اتحادیوں نے 1980ء کے اولمپک کھیلوں میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور یوں 1985ء میں دوسری سرد جنگ اُس وقت ختم ہوئی جب جنیوا میں امریکہ کے صدر رونالڈ ریگن اور روسی صدر میخائل گورباچوف کے ملاقاتیں ہوئیں اُور اِن کے نتیجے میں 1991ء میں متحدہ روس کی قوت ریاستوں میں تبدیل ہو کر تحلیل ہو گئی۔ موجودہ حالات میں اگر دنیا نے ایک اور سرد جنگ کا مشاہدہ کیا تو یہ امریکہ اور روس‘ امریکہ و چین اور بھارت و پاکستان کے درمیان ہوگی‘ جس کے لئے پہلے ہی ماحول بنانے کے لئے مغربی ممالک کے ذرائع ابلاغ روس اور چین کے خلاف یلغار کر چکے ہیں اور چونکہ ماضی کے مقابلے حال و مستقبل کی سرد جنگیں ’معلومات‘ کی بنیاد پر لڑی جائیں گی‘ اِس لئے غلط معلومات اور کسی خاص نکتہئ نظر سے حالات کے تجزئیات پر مبنی منفی پہلو ’پراپیگنڈا  وار فیئر‘ کے ہتھیار ہیں‘ جن سے پاکستان کو محفوظ رکھنے کیلئے وزیراعظم عمران خان نے ’پاکستانیت‘ کے فروغ اور ’پاکستانیت‘ پر انحصار کی ضرورت پر زور دیا ہے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان نے امریکی جنگ میں صف اول کا کردار ادا کیا لیکن اِس کے باوجود پاکستان ہی کو بُرا بھلا کہا گیا۔ مختصر دورانئے کے فلمی میلے (نیشنل امیچور شارٹ فلم فیسٹول) کی تقریب تقسیم انعامات سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”سافٹ امیج خود داری سے آتا ہے اور اس کیلئے ہمیں پاکستانیت کو فروغ دینا ہو گا۔ پاکستانی فلم انڈسٹری کے زوال کی بڑی وجہ اندھی تقلید تھی جس میں بھارتی اور یورپی کلچر کو اپنی مشرقی ثقافت پر ترجیح دی گئی اور حقیقت یہ ہے کہ امریکی و یورپی فلمی صنعت نے فحاشی کو فروغ دیا اور صرف احساس کمتری میں مبتلا شخص ہی دنیا کی نقل کرتا ہے اگر دنیا میں پاکستان کے لطیف پہلوؤں (سافٹ امیج) کو اُجاگر کرنا ہے تو اِس کیلئے ’پاکستانیت‘ کو فروغ دینا ہوگا۔ وزیراعظم نے اِسی قسم کے خیالات کا اظہار امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے بھی کیا تھا۔ بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں دیکھا جائے تو افغانستان سے امریکی افواج کا انخلأ پاکستان کیلئے نہ صرف اہمیت کا حامل ہے بلکہ یہ پاکستان کیلئے انتہائی حساس مسئلہ بھی ہے کیونکہ اس کسی وجہ سے افغانستان کے سیاسی اور سماجی حالات میں جو بھی مثبت یا منفی تبدیلیاں رونما ہوں گی ان کا براہ راست اثر پاکستان پر بھی پڑے گا جبکہ افغانستان سے امریکی افواج کے اِنخلأ کے بعد سرد جنگ کے آغاز کا امکان ہے‘ جس سے نمٹنے کے لئے پاکستان کو اپنا ’ہوم ورک‘ (تیاری) مکمل کرنا ہوگی اور اِس تیاری کے سلسلے میں پہلا اقدام ’پاکستانیت‘ کو اپنانا ہوگا‘ جو گمشدہ ورثہ اور میراث ہے!