خودی اورسراغ زندگی

وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ انگریزی بولنا اور انگریزوں جیسے کپڑے پہننا سافٹ امیج نہیں بلکہ احساس کمتری ہے۔ سافٹ امیج کوئی چیز نہیں ہوتی، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جب پاکستانیوں کو انتہاپسند اور بنیاد پرست کہا گیا تو ہمارے اندر یہ دفاعی سوچ پیدا ہوئی کہ ہم پاکستان کا سافٹ امیج اجاگر کریں۔ عمران خان نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ہم امریکہ کے مفادات کا تحفظ کر رہے تھے اور وہ ہمیں برا بھلا بھی کہہ رہے تھے۔ حالانکہ ہمیں ان کی جنگ میں حصہ دار بننے کی کوئی ضرورت نہ تھی، اس وقت پاکستان کیلئے یہ کہاگیا کہ یہ بہت خطرناک جگہ ہے، یہاں بنیاد پرست اور انتہا پسند موجود ہیں۔ لوگوں نے سمجھا کہ اگر وہ انگریزی کپڑے پہنیں گے اور انگریزی زبان بولیں گے تو پاکستانیوں کو ترقی پسند مانا جائے گا۔میں نے امریکی جنگ میں شامل نہ ہونے کی بات کی تو مجھے طالبان خان کہا گیا۔ سافٹ امیج خودداری سے آتا ہے،دنیا اس کی عزت کرتی ہے جو پہلے اپنی عزت کرتا ہے،سافٹ امیج کو پروموٹ کرنا ہے توپاکستانیت کوپروموٹ کریں۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی طرح فحش فلمیں اور ڈرامے بنانے سے ملک کی ساکھ بہتر نہیں ہوسکتی۔ جو شخص ہارنے سے ڈرتا ہے وہ کبھی نہیں جیت سکتا احساس کمتری میں مبتلا شخص دوسروں کو کاپی کرتا ہے۔عمران خان کے امریکی ٹیلی وژن کو دیئے گئے حالیہ انٹرویو نے ان کے کٹر سیاسی مخالفین کو بھی وزیراعظم کے دوٹوک موقف، جرات مندی اور خود داری کے اعتراف پر مجبور کردیا ہے۔ بیس سالوں تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اتحادی ہونے کا خمیازہ ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔ ہمارے پچاس ہزار سے زائد فوجی افسران، جوان، پولیس اہلکار اور عام شہری اس بے مقصد جنگ کا ایندھن بن گئے ملک کو 80ارب ڈالر سے زائد کا مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ وزیراعظم کی یہ بات پتھر پر لکیر ہے کہ جس شخص کی گھر میں عزت نہ ہو۔ گھر سے باہر اسے کوئی گھاس نہیں ڈالتا۔ ہم نے آقاؤں کی بڑی خدمت کی، جس کے بدلے میں نفرت اور ٹھوکروں کے سوا کچھ نہیں ملا۔ سابق صدر ایوب خان اپنی کتاب فرینڈز ناٹ ماسٹرز میں لکھتے ہیں کہ ”ترقی پذیر ممالک کی خواہش ہے کہ وہ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ باہمی احترام اور برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کریں۔ ہمیں دوستوں کی ضرورت ہے آقاؤں کی نہیں“آج یہی بات وزیراعظم عمران خان بھی کررہے ہیں اور انہوں نے امریکی میڈیا کے سامنے دوٹوک الفاظ میں اپنا موقف بتایا ہے کہ اب ہم سے ڈومور کاتقاضا نہ کیا جائے۔ہم کسی قیمت پر خطے میں عدم استحکام کے لئے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔قومی غیرت کے عملی اظہار میں بائیس کروڑ عوام وزیراعظم کے موقف کی تائید کرتے ہیں۔یہی بات شاعر مشرق نے برسوں پہلے ہمیں سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ جو اب کچھ کچھ ہماری سمجھ میں آنے لگی ہے کہ ”اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی۔ تو اگر میرا نہیں بنتا، نہ بن اپنا تو بن“۔