پشاور کہانی: قصہ خوانی


توجہ دلائی گئی ہے کہ ’قصہ خوانی بازار‘ کا صرف نام باقی ہے‘ اب وہاں نہ روائتی قہوہ خانے ہیں‘ نہ مسافروں کی ڈیرے اور نہ ہی قصہ کہانیاں اور لوک موسیقی کی گونج سنائی دیتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پشاور میں سب کچھ جس تیزی سے تبدیل ہوا ہے‘ اُس کی وجوہات میں گردوپیش کے علاقوں بالخصوص افغانستان کی سرحد سے متصل قبائلی پٹی میں امن و امان کا بڑا عمل دخل ہے جہاں حالات معمول پر آنے کے باوجود بھی اکثریت واپس جانے کے لئے تیار نہیں اور یہ پشاور کا طلسماتی راز ہے کہ یہاں غیردانستہ طور پر وارد ہونا تو ممکن ہے لیکن یہاں سے دانستہ کوچ کرنا ممکن نہیں اور جو ایک بار پشاور آتا ہے وہ اِس شہر کی ’پراسرار مقناطیسی کشش‘ سے خود کو کبھی بھی رہا نہیں کر سکتا۔ یہ خصوصیت بھی پشاور ہی کی ہے کہ یہ ہر دور میں نقل مکانی کرنے والوں کا مرکز رہا ہے‘  ہر کسی کے لئے پشاور کی فضاؤں میں عافیت و سکون موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے بندوبستی علاقوں سے بہتر روزگار کی تلاش میں نقل مکانی کرنے والوں کی اکثریت کا ’پہلا پڑاؤ‘ پشاور ہی میں ہوتا ہے اور پشاور بانہیں کھول کر ہر کس و ناکس کا استقبال کرتا ہے‘ کہ یہی اِس کے شایان شان ہے۔ دنیا کو ثقافت اور مہمان نوازی کا درس دینے والے پشاور جیسے کسی ایک بھی شہر (نگر) کی مثال بیان نہیں کر سکتے‘ جس کی بانہیں ہمیشہ کھلی ہوں اور جو خندہ پیشانی سے ہر آنے والے کا استقبال کرے۔پشاور کی تاریخ اور بھولی بسری باتوں‘ یادوں‘ چرچوں کے ساتھ پشاور کی گلی کوچوں اور بازاروں میں بھاری قدموں کے ساتھ چلتے ہوئے اگر کہیں بھی رُکنے کو جی نہ چاہے تو ’قصہ خوانی بازار‘ کی جدیدیت میں دفن ہوئے روایتی فن تعمیر کی چند ایک آثار بالاخانوں کی صورت دیکھے جا سکتے ہیں اور یہ بھی چند دن کے مہمان ہیں۔ بقول احمد ندیم قاسمی پشاور کی صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ ”مسافر ہی مسافر ہر طرف ہیں …… مگر ہر شخص تنہا جا رہا ہے!“ آج کے ’پُرہجوم پشاور‘ میں جس قدر اجنبیت کا احساس ہوتا ہے ماضی میں کبھی بھی ایسا نہیں تھا کہ شناسا چہروں کی تلاش رہتی ہے! ”ہم سفر چاہئے ہجوم نہیں …… اک مسافر بھی قافلہ ہے مجھے (احمد فراز)۔“ قصہ خوانی بازار کے ماضی و حال کا آپس میں تعلق (رشتہ) نہیں رہا اور یہ صرف اِس ایک بازار کی نہیں بلکہ پشاور کہانی کے ہر باب کے تعارف میں اِسی قسم کے رویئے اور لاتعلقی غالب دکھائی دے گی‘ جو پشاور کی تبدیلی نہیں بلکہ اِس کی خصوصیات سے محرومی کا تسلسل ہے۔ بازار کے وسط میں ’شہدأ کی یادگاریں‘ 23 اپریل 1930ء جبکہ دائیں بائیں تاحد ِنظر ’تجاوزات‘ حال کے حکمرانوں کے ظلم و ستم کا منہ بولتا ثبوت ہیں‘ جن کے پشاور سے دلی لگاؤ کیلئے مزید کچھ نہ بھی کہا جائے تو کافی ہوگا۔تذکرہ کسی ایک بازار کا نہیں بلکہ ’قصہ خوانی‘ کا ہے اور اہل پشاور کا وصف ’داستان گوئی‘ ہے۔ یہاں ہر عمر اور ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے ’داستان گو‘ مل جاتے ہیں۔ کچھ داستانیں سیاسی بھی ہوتی ہیں لیکن داستان گو سننے اور دیکھنے والوں پر حاوی رہتا ہے۔ اہل پشاور کے پاس بالعموم کبھی بھی موضوعات کی کمی نہیں دیکھی گئی اور ایک وقت تک ہر خاندان میں کوئی نہ کوئی ایسا فرد ہوتا تھا جس یاداشت‘ حافظے اور ذہانت کی داد نہ بھی دی جائے لیکن وہ اپنے کام میں مگن رہتا (اور ایسے چند ایک کردار آج بھی قصہ خوانی کی روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں)۔ درحقیقت کہانیاں سنانا ’فن‘ ہے۔ کہاوت ہے کہ ”سچائی ہمیشہ بیان میں ہوتی ہے!“ اور یہی سچائی کہیں راوی‘ کہیں داستان گو‘ اور کہیں تاریخ داں کے روپ میں سماجی طور پر محافل کی جان ہوتے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ کسی کہانی کے 4 بنیادی جز ہوتے ہیں اور اِن چاروں میں ہر کسی کو کمال نہیں ہوتا لیکن اگر ”رزم‘ بزم‘ طلسم اور عیاری“ پر مبنی اِن چار اصولوں میں سے کسی ایک پر بھی مہارت حاصل کر لی جائے تو اِسے کامیاب ’قصہ خوانی‘ سمجھا جاتا ہے۔ ’قصہ خوانی‘ دنیا کا قدیم ترین فن اور علم منتقل کرنے کا ذریعہ ہے۔ یہی کہانیاں غار کی دیواروں سے پتھروں پر کندا ملتی ہیں اور انہی کہانیوں کو مصوری‘ عکاسی اور فلم بندی کے ذریعے محفوظ کیا جاتا ہے۔ ہر کہانی کا ایک ’داستان گو‘ ہوتا ہے چاہے وہ کوئی سائنسی تحقیقی مقالہ ہو یا تصوراتی کردار اور افسانہ‘ اِن سب کی خصوصیت اور حاصل (مشترک اقدار) میں وقت (time)‘ سماجی اقدار (social values) اور نیت یعنی ارادہ یا محرک یعنی سبب (intention) سے متعلق نکتہئ نظر پیش کیا جاتا ہے۔ آج کے پشاور کی کہانی کو اگر اِنہی تین اصولوں (وقت‘ سماجی اقدار اور محرکات) کی روشنی میں دیکھا جائے تو ’قصہ خوانی‘ کی روایت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے بہت سی سماجی و خاندانی بُرائیوں‘ خرابیوں اور تنازعات کو حل کرنے کے علاوہ اخلاقی تربیت کا اہتمام بھی اِسی ’تعمیری و تعبیری فن‘ سے ممکن ہے۔تخلیق کا عمل جسمانی مشقت اور کرب و غضب کی برداشت سے مکمل ہوتا ہے لیکن چونکہ ٹیکنالوجی کے دور میں ہر دن آسانیاں عام ہو رہی ہیں‘ اِس لئے ’قصہ خوانی‘ کے اسلوب بھی بدل گئے ہیں۔ مقبول عام سوشل میڈیا وسائل (یوٹیوب‘ فیس بک‘ انسٹاگرام اور ٹک ٹاک وغیرہ) کی نفسیات (بنیادی فلسفہ) ’قصہ خوانی‘ ہی ہے جس کے دورانئے اور اسلوب مختلف ہیں لیکن مقصد ایک ہی ہے کہ صارفین اپنے گردوپیش سے متعلق دنیا کو آگاہ کریں اور اِس عمل میں چونکہ ایک خاص حس کی تسکین ہو رہی ہوتی ہے جو انسانی فطرت کا راز ہے‘ اِس لئے سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلتی اور بدلتی ’قصہ خوانی‘ کو روکا نہیں جا سکتا۔ ارباب علم و فن اور فکر و نظر جانتے ہیں کہ تبدیلی کا عمل کائنات کی مستقل مزاجی کا حصہ اور ایک ایسی خوبی ہے‘ جس کی رفتار کہیں دھیمی تو کہیں تیز محسوس ہوتی ہے لیکن اِسے روکا نہیں جا سکتا۔ پشاور کی کہانیاں‘ قصے‘ روایات کا بیان یہاں کی سماجیات کا حصہ رہا ہے اور مختلف صورتوں میں جاری ہے۔ کہاوت ہے کہ ”فنون لطیفہ نہ صرف علم منتقل کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں بلکہ یہ کسی مسئلے کے کئی ایک حل تک رسائی میں مدد بھی دیتے ہیں اور اِسی عدسے کی مدد سے ہم دنیاوی حقائق کو کئی الگ الگ زاوئیوں سے دیکھ سکتے ہیں!“