خیبر پختونخواحکومت نے عوامی خدمات سے متعلق تمام تعمیراتی محکموں کے دائرہ کار اور ذمہ داریوں کا واضح تعین کرنے فیصلہ کیا ہے تاکہ تعمیراتی منصوبوں اور عوامی خدمات کی فراہمی کے کاموں میں دوہرے پن کو ختم کرکے عوامی وسائل کے اسراف کی روک تھام کو یقینی بنایا جا سکے۔ وزیر اعلی نے اس سلسلے میں محکمہ منصوبہ بندی کو تمام تعمیراتی محکموں کے ساتھ مشاورت کے ذریعے تعمیراتی منصوبوں اور عوامی خدمات کی فراہمی کے محکموں کی ذمہ داریوں اور مینڈیٹ کا واضح طور پر تعین کرنے کیلئے ایک مہینے میں لائحہ عمل تیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ پینے کے پانی کی فراہمی، نالیوں اور گلیوں کی پختگی، صفائی ستھرائی، سڑکوں کی تعمیر، سٹریٹ لائٹس کی تنصیب، میونسپل سروسز اور آبپاشی کے شعبوں میں ایک ہی کام ایک سے زیادہ محکمے انجام دینے کی وجہ سے پیچیدگیاں پیدا ہورہی ہیں۔سرکاری اداروں میں روابط اور اشتراک عمل کا فقدان ہمارے ملک کا دیرینہ مسئلہ ہے۔ سی اینڈ ڈبلیو کا محکمہ سڑک تعمیر کرکے چلا جاتا ہے۔ دو چار مہینے بعد محکمہ سوئی گیس والے آکر گیس پائپ بچھانے کیلئے سڑک کھود دیتے ہیں اور اپنا کام کرکے سڑک کو کھنڈر چھوڑ کر رفوچکر ہوجاتے ہیں۔ اگلے سال کے بجٹ میں سڑک کی مرمت و توسیع کیلئے فنڈ نکلتا ہے۔ متعلقہ محکمہ سڑک تعمیر کرتا ہے تو دو چار مہینے بعد محکمہ ٹیلی فون یا پبلک ہیلتھ والے آکر سڑک دوبارہ کھود دیتے ہیں اور اپنا کام پورا کرکے سڑک کو دوبارہ کھنڈر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ اگر محکموں کے درمیان روابط اور اشتراک عمل قائم ہوجائے تو سڑک کی تعمیر سے قبل تمام محکموں کو نوٹس دیا جاسکتا ہے کہ اگر وہ گیس، پانی یا کیبل لائن بچھانا چاہتے ہیں۔ تو مہینے دو مہینے کے اندر اپنا کام مکمل کریں تاکہ سڑک تعمیر کی جاسکے۔ اگر وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو متعلقہ محکموں کو پابند بنایاجائے کہ اپنی لائنیں بچھانے کے بعد سڑک کی مرمت کئے بغیر نہیں جاسکتے بصورت دیگر ان کے بل ریلیز نہیں کئے جائیں گے۔جہاں تک تعمیراتی کاموں کے معیار اور ٹائم لائن کے مطابق ان کی تکمیل کا تعلق ہے۔ اس حوالے سے بھی قیام پاکستان کے بعد اصلاح احوال کی کسی حکومت نے کوئی کوششں نہیں کی۔کسی حفاظتی پشتے،پل، سڑک، سکول، ہسپتال یا نہر کی تعمیر کا منصوبہ شروع کرنا ہو۔تو ٹھیکیداروں سے ٹینڈر طلب کئے جاتے ہیں۔ منصوبے کیلئے اگر پچاس کروڑ روپے منظور ہوئے ہیں تو سب سے کم بولی دینے والی فرم یا ٹھیکیدار کو کنٹریکٹ دیا جاتا ہے اگر اس نے چالیس کروڑ میں کام مکمل کرنے کی حامی بھری ہے تو باقی ماندہ دس کروڑ روپے کہاں جاتے ہیں یہ معمہ آج تک حل نہیں ہوسکا۔ بڑا ٹھیکیدار وہ کام دو تین چھوٹے ٹھیکیداروں کے حوالے کرتا ہے۔ جو اپنا اپنا حصہ پہلے نکال لیتے ہیں۔ پچاس کروڑ میں سے کمیشن، سرکاری اخراجات اور منافع نکالنے کے بعد منصوبے پر بمشکل پندرہ بیس کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ پچاس کروڑ کا منصوبہ اگر پندرہ کروڑ میں تکمیل کو پہنچے تو اس کا معیار کیاہوگا۔ یہ ہم سب جانتے ہیں منصوبے کی تکمیل کے ایک سال کے اندر ہی مرمت کیلئے فنڈ رکھا جاتا ہے تاکہ یار لوگوں کا روزگار چلتا رہے۔ کسی بھی منصوبے پر کام کے معیار کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی۔اس لئے اگر حکومت قومی وسائل کے اسراف کو روکنے اور منظور شدہ فنڈ کی پائی پائی منصوبے پر خرچ کرنے کا لائحہ عمل طے کرتی ہے تو یہ قوم پر حکومت کا بڑا احسان ہوگا۔