نتھیاگلی۔۔۔۔۔

خیبرپختونخوا میں ہر سال 20 لاکھ سے زائد ملکی و غیر ملکی سیاح آتے ہیں جن کی اکثریت ہزارہ ڈویژن کے بالائی علاقوں بالخصوص گلیات کی پرفضا وادیوں کا رخ کرتی ہے۔ قریب 80 کلومیٹر طویل پہاڑی پٹی پر مشتمل گلیات کا علاقہ ایبٹ آباد (خیبرپختونخوا) سے مری (پنجاب) تک پھیلا ہوا ہے جسے 1846-47ء میں ایبٹ آباد کے ساتھ ترقی دی گئی اور یہاں شاہراہیں‘ پینے کے پانی کی ذخیرہ و فراہمی کا نظام‘ فوجی چھاؤنی اور سرکاری و نجی رہائشی علاقے بنائے گئے جن میں سرکاری محکموں کے ’ریسٹ ہاؤسز‘ بھی شامل ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد گلیات کی مقامی آبادی سے زیادہ غیرمقامی افراد آباد ہوئے لیکن اِن علاقوں پر مشتمل سرکل بکوٹ (8 یونین کونسلوں) کو نہ تو تحصیل کا درجہ مل سکا اور نہ ہی مقامی افراد کیلئے روزگار و تعلیم کے خاطرخواہ سہولیات فراہم کی گئیں۔ گلیات کے سیاحتی امکانات اور وسائل سے مقامی افراد سے زیادہ غیرمقامی افراد فائدہ اُٹھا رہے ہیں جبکہ سبھی بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور رہنماؤں نے گلیات میں مکانات بنا رکھے ہیں‘۔ گلیات میں جنگلات کے رقبے میں اضافہ اور جنگلات کی حفاظت کیلئے سب سے زیادہ سنجیدہ اور عملی اقدامات تحریک انصاف حکومت کے پہلے دور (2013ء سے 2018ء) اور دوسرے دور حکومت میں سال 2018ء سے جاری ہیں اور اِس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان تعطیلات اور بالخصوص عیدین کے تہوار گلیات ہی میں گزارتے ہیں اور ہمارے سرکاری محکموں کے کام کاج کا طریقہ ہی یہ ہے کہ یہ حکمرانوں کے مزاج آشنا ہوتے ہیں اور صرف وہی کام ترجیحاً کرتے ہیں جن میں وفاقی اور صوبائی حکمرانوں کی دلچسپی ہو۔ گلیات کا علاقہ سطح سمندر سے 8 ہزار فٹ بلند ہے اور اِس کے معروف و ایک دوسرے سے متصل حصوں میں ایوبیہ‘ باڑہ گلی‘ چھانگلہ گلی‘ ڈونگا گلی‘ خیرا گلی‘ خانسپور‘ نتھیاگلی‘ ٹھنڈیانی‘ دروازہ (ایوبیہ)‘ ڈگری نکہ‘ بگنوتر اور نملی میرا شامل ہیں۔ موسم گرما (اپریل سے ستمبر) کے دوران گلیات کی رونقیں بڑھ جاتی ہیں کیونکہ یہی دور میدانی علاقوں میں تعلیمی اداروں کی موسم گرما تعطیلات کا ہوتا ہے جب گرمی کے ستائے ہزارہ ڈویژن کا رخ کرتے ہیں۔نتھیاگلی کو گلیات کا ’صدر مقام‘ کہا جا سکتا ہے جو مختلف گلیات کے وسط میں واقع ہے۔ سرکاری طور پر موسم گرما یکم مئی سے اکتیس اگست کا درمیانی عرصہ جبکہ یکم نومبر سے اٹھائیس فروری تک موسم خزاں رہتا ہے اور اِس عرصے کے دوران بارشیں و برفباری ہوتی ہے‘۔ اُنتیس جون رات 9 بج کر 52 منٹ پر سیکرٹری کھیل‘ سیاحت‘ آثار قدیمہ‘ ثقافت اور امور نوجوانان نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ (@AbidMajeed1969) سے چار تصاویر اور یہ ایک جملے میں پیغام جاری کیا کہ ”نتھیاگلی“ کا ”تھری ڈی (ڈائی مینشنل)“ ماڈل نصب کر دیا گیا ہے۔“ کیا وجہ تھی کہ یہ خبر ’گلیات ایبٹ آباد‘ کے ٹوئیٹر اکاؤنٹ (@GDAAbbottabad) سے جاری نہیں کی گئی جو مارچ 2016ء سے فعال ٹوئیٹر اکاؤنٹ ہے اور اِس کے صرف 1530 فالورز ہیں جبکہ متعلقہ محکمے کے مقابلے جون 2013ء میں تخلیق کئے گئے سیکرٹری سیاحت کے ٹوئیٹر اکاؤنٹ کے فالورز کی تعداد زیادہ ہے اور چوبیس ہزار سے زائد سوشل میڈیا صارفین اُن کی پیغامات کے منتظر رہتے ہیں۔ سب سے پہلی ضرورت تو اِس اقدام کی ہے کہ سرکاری محکموں کے ٹوئیٹر اکاؤنٹس کی تشہیر کی جائے اور معلومات یا خبروں کا اجرأ کا سب سے پہلے سرکاری سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے کیا جائے تاکہ ملکی و غیرملکی سیاحوں کو اعتماد ہو کہ اُن تک پہنچنے والی معلومات صوبائی حکومت کی طرف سے ہے۔  نتھیاگلی کے ’تھری ڈی ماڈل‘ پر کل کتنا خرچ آیا اُور اِس کے ادھورے پن کو دور کرنا کس کی ذمہ داری ہے‘ واضح نہیں ہے۔ تھری ڈی ماڈل کی ضرورت کیا تھی جبکہ پانچ روز قبل متعلقہ محکمے ’گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘ نے ایک سیاحتی نقشہ جاری کیا تھا‘ جو اپنی نوعیت کی خاص اُور قابل تعریف کوشش ہے۔ فیصلہ سازوں کو سوچنا چاہئے کہ مذکورہ نقشے اُور تھری ڈی ماڈل میں جس قدر بڑے رقبے پر درخت (سرسبزی و ہریالی) دکھائی گئی ہے‘ برسرزمین حقیقت اِس سے مختلف کیوں ہے!؟ عموماً حکومت کے ترقیاتی منصوبوں کی جزئیات و تفصیلات کسی آہنی یا پتھر کی تختی پر تحریر کر کے سرعام آویزاں کی جاتی ہیں جن میں منصوبے کا ’سرکاری نام‘ کل لاگت اُور اِن اخراجات کے حوالے سے متعلقہ رکن اسمبلی یا محکمے اُور ٹھیکیدار کا نام درج کیا جاتا ہے لیکن گلیات کے کئی ایک منصوبوں کی ایسی تفصیلات کیوں عام نہیں‘ یہ سوال اپنی جگہ غور طلب اُور جواب طلب ہے۔ نتھیاگلی کے تھری ڈی ماڈل کی کمی بیشیاں اور برسرزمین ضروریات کا مختصر احوال یہ ہے کہ 1: نتھیاگلی کے قریب پانی کی جھیل مذکورہ تھری ڈی ماڈل میں نہیں دکھائی گئی‘ جو اِن دنوں سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ 2: نتھیاگلی کا ٹول پلازہ کباڑ خانے کا منظرپیش کرتا ہے‘ جسے خوبصورت بنانے کے ساتھ وہاں سیاحوں کیلئے بنیادی سہولیات کی فراہمی کا بندوبست ہونا چاہئے اور صرف نتھیاگلی ہی نہیں بلکہ دیگر گلیات کو بھی ایک ہی نظر سے دیکھا جائے۔ 3: گلیات کیلئے الگ ریڈیو سٹیشن کا قیام ضروری ہے اور اِس ’گلیات ایف ایم‘ کے ذریعے نہ صرف سیاحوں کی شکایات و تاثرات معلوم ہو سکیں گی بلکہ کسی موسمی خرابی (بارش یا طوفان اور مٹی کے تودے گرنے کی صورت راستوں کی بندش یا قیام کی گنجائش پُر ہونے) سے متعلق معلومات بھی نشر کی جا سکیں گی۔ علاؤہ ازیں گلیات میں قدرتی وسائل (جنگلات و جنگلی حیات) کے تحفظ کیلئے بھی پیغامات نشر ہو سکیں گے اُور ملکی و غیرملکی سیاحوں کو یاد دہانی کروائی جا سکتی ہے کہ گلیات کے ماحول کو نقصان پہنچانے کا باعث بننے والے کن محرکات سے گریز کریں۔ عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ بندروں اُور دیگر جنگلی حیات کو پلاسٹک کی بوتلوں میں بند مشروبات یا جوسز اور کھانے پینے کی ایسی اشیا دی جاتی ہیں جو اُن کی صحت کیلئے مضر ہوتی ہیں لیکن چونکہ گلیات میں براستہ ایبٹ آباد یا براستہ مری داخل ہونے والوں کو کسی بھی قسم کی ہدایات نہیں دی جاتیں اور نہ ہی سیاحتی مقامات کے چپے چپے پر حفاظتی اہلکاروں کو تعینات کرنا ممکن ہے‘ اِس لئے کثیر سرمائے سے بنائی گئیں اکثر آرام گاہیں اور انتظار گاہیں خاطرخواہ دیکھ بھال و مرمت نہ ہونے کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ سیاحوں کیلئے بنائے گئے باتھ رومز اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا بھی خاطرخواہ انتظام موجود نہیں جبکہ مقامی افراد کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ اُنہیں خیراگلی سے پانی فراہم کیا جائے‘ جہاں سے بذریعہ پائپ لائن مر ی سیراب ہوتا ہے۔