پاک امریکہ تعلقات کا نیا موڑ۔۔۔۔

پاکستان اور امریکہ کے درمیان فضائی و زمینی مواصلات میں تعاون کے معاہدے کی معیاد 30 جون کو ختم ہوگئی۔دونوں ملکوں کے درمیان یہ معاہدہ 2001میں اس وقت طے پایاتھا جس کے بدلے امریکہ نے چند سالوں تک پاکستان کو اپنا غیر نیٹو اتحادی قرار دیا۔بعد میں امریکہ نے اپنا یہ درجہ واپس لے لیا۔ 2001میں طے پانے والے معاہدے کی مدت میں دو تین مرتبہ توسیع کی گئی۔ معاہدے کی مدت میں توسیع کی دستاویز پر آخری مرتبہ 2018 میں دستخط کئے گئے تھے،اس معاہدے کے تحت پاکستان نے افغانستان میں موجود امریکی اور نیٹو افواج کو فضائی و زمینی مواصلات میں تعاون فراہم کیا تھا۔دہشت گردی کے خلاف  جنگ میں فعال کردار ادا کرنے کے باوجود امریکہ پاکستان سے ہمیشہ ”ڈو مور“ کا مطالبہ کرتا رہا۔ افغانستان میں اربوں ڈالر کا مالی نقصان اٹھانے اور سینکڑوں فوجیوں کی ہلاکت کے بعد سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دور حکومت کے آخری دنوں میں افغانستان سے فوجی انخلاء کا اعلان کیاتھا۔ موجودہ صدر جوبائیڈن اوران کی بھارتی نژاد نائب صدر نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے پاک امریکہ تعلقات میں سرد مہری دکھائی دے رہی ہے۔ افغان حکومت اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے، امن معاہدہ طے کرنے میں معاونت اور کابل سے فوجی انخلاء کی راہ ہموار کرنے میں مدد دینے کے باوجود امریکی صدر نے بذات خود پاکستان سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ جس پر پاکستانی قیادت نے امریکہ کے ساتھ فضائی اور زمینی مواصلات میں تعاون کے معاہدے میں توسیع سے صاف انکار کر دیا پاکستان نے امریکہ پر واضح کیا ہے کہ مکمل فوجی انخلاء سے قبل افغانستان میں امن کے قیام کیلئے واضح حکمت عملی کا اعلان کیا جائے اگر امریکہ نے سوویت فوج کے انخلاء کے بعد افغانستان کو اپنے حال پر چھوڑنے کی غلطی دہرائی تو افغانستان دوبارہ خانہ جنگی کی لپیٹ میں آجائے گا، شدت پسندی کو فروغ ملے گا۔ ایسی صورت میں پاکستان اپنی مغربی سرحدیں سیل کردے گا۔گذشتہ 42سالوں سے 30لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کی پاکستان میزبانی کر رہا ہے۔ مزید مہاجرین کا بوجھ برداشت نہیں کیاجاسکتا۔ پاکستان نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان کی بحالی پروگرام میں مہاجرین کی واپسی اور آبادی کاری کو بھی شامل کیاجائے۔ دفتر خارجہ نے واضح کیا ہے کہ کابل میں وسیع البنیاد قومی حکومت کا قیام ہی امن کی ضمانت ہے۔ افغانستان میں عدم استحکام اور کشیدگی پورے خطے کیلئے نقصان دہ ہے۔ حامد کرزئی اور اشرف غنی کے دور حکومت میں کابل اور دلی کے درمیان قریبی تعلقات رہے ہیں۔ بھارت افغانستان کو اپنا بیس بناکر بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات کی سرپرستی کرتا رہا ہے جس کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں بلوچستان سے گرفتار ہونے والے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو نے بھی پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی بھارتی سازشوں کا اعتراف کیا ہے۔ اس وقت بھارت افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد کے حالات کے حوالے سے منفی سفارتخاری میں مصروف ہے جس کا ہدف پاکستان ہے اور اس کی کوشش ہے کہ امریکی افواج کے جانے کے بعد بھی وہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر سکے۔ بھارت کی یہ منفی سفارتکاری امریکہ کیلئے بھی مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔ کابل سے فوجی انخلاء کے بعد اگر خطے میں دوبارہ کشیدگی اور بدامنی نے سر اٹھالیا تو یہ امریکہ کیلئے جانی و مالی نقصان کے ساتھ بدنامی اور سبکی کا باعث بن سکتا ہے۔ جوبائیڈن انتظامیہ کو سپرپاور ہونے کا بھرم قائم رکھنے کیلئے دانشمندانہ حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی۔