اہلیت کا امتحان: امتحان کی اہلیت۔۔۔۔

طب (میڈیکل اینڈ ڈینٹل) کی تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند کسی طالب علم کی داخلہ اہلیت جانچنے کے ایک سے زیادہ معیارات مقرر ہیں۔ جن میں امتحانی بورڈز کے حاصل کردہ نمبرات کے مقابلے ’فیصلہ کن کردار‘ وہ خصوصی امتحان ادا کرتا ہے جسے ’ایم ڈی کیٹ MDCAT‘ کہتے ہیں اور اِس امتحان کے پرچہ جات (امتحانی نصاب) میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز کا نگران و منتظم اِدارہ ’پاکستان میڈیکل کمیشن‘ کا حصہ  ’نیشنل میڈیکل اِینڈ ڈینٹل اکیڈمک بورڈ‘ کرتا ہے جس نے ’ایم ڈی کیٹ 2021ء‘ کے پرچہ جات (اِمتحانی نصاب) کو حتمی شکل دیدی ہے جسے منظور بھی کر لیا گیا ہے۔ اِس پیشرفت کو ذہن رکھتے ہوئے داخلوں سے متعلق ’انتظامی حکمت ِعملی‘ بھی طے کی گئی ہے جس کے مطابق ایسے تمام طلبا و طالبات جنہوں نے 12ویں جماعت کا امتحان ابھی نہ بھی دیا ہو لیکن اُنہیں ’ایم ڈی کیٹ 2021ء‘ میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے گی‘ جو کورونا وبا کی وجہ سے ’30 اگست سے 30 ستمبر‘ کے درمیان منعقد ہوگا۔ ماضی میں ’ایم ڈی کیٹ‘ امتحان میں حصہ لینے کے اہلیت صرف اُنہی طلبا و طالبات کی ہوتی تھی جنہوں نے 12ویں جماعت کا امتحان پاس کر لیا ہوتا تھا
 اور مذکورہ امتحان میں اُن کے مجموعی کم سے کم نمبر 60 فیصد ہوتے تھے۔ کورونا وبا کے باعث چونکہ درس و تدریس اور اِمتحانی معمولات متاثر ہیں اِس لئے رعایت دی گئی ہے کہ کسی صوبے میں اگر انٹرمیڈیٹ (بارہویں جماعت) کے امتحانات نہ بھی ہوئے ہوں تو وہاں سے میڈیکل کی تعلیم کے خواہشمند ’اہلیت کا اِمتحان (اِیم ڈی کیٹ)‘ دے سکیں لیکن داخلہ حاصل کرنے کیلئے بارہویں جماعت (پری میڈیکل) کا امتحان مجموعی طور پر 60 فیصد نمبروں سے پاس کرنا بدستور لازم رہے گا۔ پاکستان میڈیکل کمیشن کے زیراہتمام ”انڈر گریجویٹ ایجوکیشن (داخلے‘ نصاب اور طریقہئ کار) سے متعلق قواعد 2021ء“ میں تحریر ہے کہ میڈیکل یا ڈینٹل کالج میں داخلے کے خواہشمندوں نے ’ایف ایس سی‘ یا ’اے لیول‘ کا امتحان نہ بھی دیا ہو لیکن وہ ’ایم ڈی کیٹ‘ میں حصہ لے سکتا ہے چونکہ ’اے لیول‘ کے امتحان غیرملکی تعلیمی بورڈ کے تحت ہوتے ہیں‘ جن کی مقررہ تاریخوں پر پاکستان کو اختیار نہیں ہوتا اور یہ امتحانات ہر سال اکتوبر میں ہوتے ہیں اِس لئے ’اے لیول‘ کے طلبا و طالبات کو بھی قبل از امتحان ’ایم ڈی کیٹ‘ میں حصہ لینے کی اجازت دیدی گئی ہے اور حکمت عملی یہ ہے کہ میڈیکل اور دینٹل کالجوں میں داخلے کا عمل ’15 جنوری 2022ء‘ تک مکمل کر لیا جائے گا جبکہ ’اے لیول‘ کے نتائج کا اعلان بھی جنوری ہی میں ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک اور انتظامی فیصلہ یہ بھی کیا گیا ہے کہ ’اے لیول‘ امتحانات کے نتائج کا انتظار کرتے ہوئے داخلوں کے عمل کو مکمل نہ کیا جائے۔ اِس پوری صورتحال سے عیاں ہے کہ اِس سال بھی میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں کے داخلے بروقت مکمل نہیں ہو پائیں گے اور سال گزشتہ کی طرح طلبا طالبات اور والدین کی پریشانی برقرار رہے گی۔
طب کی تعلیم معیاری ہونی چاہئے‘ جس کیلئے تعلیمی اداروں کا نظم و نسق اُس وقت تک تسلی بخش (بلند) نہیں ہوگا جب تک حکومتی نگران ادارہ (پاکستان میڈیکل کمیشن) قواعد و ضوابط پر سختی سے عمل درآمد نہیں کرواتا۔ طب کی تعلیم جدید ہونی چاہئے اور یہ ہدف بھی بنا سختی ممکن نہیں اور یہ سختی صرف نجی ہی نہیں بلکہ سرکاری میڈیکل و ڈینٹل کالجوں (تعلیمی اداروں) میں یکساں لاگو ہونی چاہئے۔ رواں ہفتے عدالت عالیہ (پشاور ہائی کورٹ) کے چیف جسٹس قیصر رشید خان اور جسٹس ناصر محفوظ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے ایک نجی میڈیکل کالج کی جانب سے دائر مقدمے کی سماعت کے دوران ’پاکستان میڈیکل کمیشن‘ کو آئندہ سماعت پر متعلقہ نجی میڈیکل کالج میں قواعدوضوابط کے مطابق سہولیات کی تفصیلات پیش کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ میڈیکل کمیشن کی جانب سے یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ متعلقہ کالج کا (دوبارہ) معائنہ کروایا جائے گا اور اِس معائنہ رپورٹ پر عدالت آئندہ سماعت میں فیصلہ کرے گی۔ پاکستان میں طب کی تعلیم اِس لحاظ سے عجوبہئ روزگار ہے کہ اِس کی نگرانی وفاقی جبکہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی معاملہ ہے اور اگرچہ تمام صوبے میڈیکل کمیشن کو تسلیم کر رہے ہیں اور تابع بھی ہیں لیکن اگر صوبے چاہیئں تو وہ اپنا الگ الگ میڈیکل کمیشن بھی تشکیل دے سکتے ہیں۔