عید الاضحیٰ کی آمد آمد ہے‘ جس کے لئے پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع اور بالخصوصی شہروں کے مضافاتی علاقوں میں مال مویشیوں کی منڈیاں لگ چکی ہیں تاہم اِس سال اِن منڈیوں کی رونقیں ماضی کی طرح نہیں کیونکہ خریدار تو ہیں لیکن قابل فروخت و مطلوب جنس کی کمی ہے’’سنت ابراہیمی (قربانی)‘‘کی ادائیگی کے لئے عمومی طور پر زیادہ خریدے جانے والے جانوروں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے اِس سال مویشی منڈیوں میں قیمتیں بہت زیادہ ہیں اور جانوروں کی قیمتیں عید سے بارہ پندرہ دن قبل بھی دوگنی ہیں جبکہ خریداروں کے پاس جانوروں کو پسند کرنے کے لئے زیادہ مواقع بھی نہیں ہیں۔ بس جسے جو جانور‘ جس قیمت پر بھی مل رہا ہے اُسی پر صبر شکر کیا جا رہا ہے اور ماضی کی طرح ذی الحجہ کے آغاز کا انتظار بھی نہیں کیا جا رہا کیونکہ عمومی تاثر یہی ہے کہ ذی الحجہ کے پہلے عشرے میں مال مویشیوں کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ اِن کی مانگ مزید بڑھ جائے گی۔ادھر وزارت قومی صحت نے عید الاضحی کے لئے گائیڈ لائنز جاری کر دیں جس کے مطابق مویشی منڈیوں سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا خدشہ ہے، بقرہ عید مویشی منڈیوں میں ایس او پیز پر سخت عملدرآمد کیا جائے۔مال مویشیوں کی طلب و رسد میں فرق کی بنیادی وجہ کوئی وبا یا قدرتی آفت نہیں بلکہ ہم انسانوں کی لالچ ہے‘جسے کسی کروٹ قرار نہیں۔ کوئی بھی تہوار ہو‘ عام آدمی (ہم عوام) بالخصوص متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والوں کے لئے تفکرات و پریشانیوں کا باعث بنتا ہے کیونکہ جس تہوار اور خصوصی ایام کی جو بنیادی ضرورت ہوتی ہے اُسی کی قلت و گرانی ہو جاتی ہے۔ رمضان کے موقع پر بیسن‘کھجور‘ مشروبات‘ چینی‘ مصالحہ جات اور کھانے پینے کی عمومی اشیا ء ناپید ہو جاتی ہیں اور عیدالاضحیٰ کے موقع پر جانوروں کی قلت کے باعث قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ عیدالاضحیٰ کے موقع پر ہر سال کی طرح اِس مرتبہ بھی مال مویشیوں کی عمومی قلت قانونی و غیرقانونی ذرائع سے جانوروں کی افغانستان ترسیل ہے اور صرف مال مویشی ہی نہیں بلکہ مرغیوں اور انڈوں کی بھی افغانستان سمگلنگ کے باعث بھی اِن کی قیمتیں عام آدمی کی خرید سے بلند ہیں۔ اِس صورتحال سے متعلق ایک مقدمہ پشاور ہائی کورٹ میں زیرسماعت ہے‘ جس سے متعلق حالیہ سماعت میں چیف جسٹس قیصر رشید خان اُور جسٹس ناصر محفوظ نے ہدایات جاری کی ہیں کہ 1: مال مویشیوں اور مرغیوں کی افغانستان سمگلنگ پر پابندی برقرار رکھی جائے۔ 2: یہ پابندی اُس وقت تک بحال رکھی جائے جب تک مقامی طور مال مویشیوں اور مرغیوں کی قیمتیں معمول پر نہیں آ جاتیں 3: افغانستان کے راستوں پر نگرانی جن اضلاع کی انتظامیہ مال مویشیوں اور مرغیوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھتی ہے‘ اُنہیں ایک دوسرے سے تعاون کرنے کے علاوہ نگرانی کے عمل کو مزید سخت کرنا ہوگا۔ مقدمے کی سماعت 9 ستمبر تک ملتوی کر دی گئی ہے یعنی عدالتی حکم کے تحت عیدالاضحیٰ کے موقع اُور اِس کے بعد تک جانوروں کی افغانستان قانونی یا غیرقانونی ذرائع سے نقل و حرکت پر پابندی عائد رہے گی۔ ذہن نشین رہے کہ پشاور سے تعلق رکھنے والے 2 شہریوں (حفیظ الرحمن اور ملک شہریار) نے مرغیوں اور انڈوں کی گرانی اور دودھ و دودھ سے بنی ہوئی مصنوعات میں ملاوٹ جیسے مسائل پر عدالت سے رجوع کیا تھا اور اِس مقدمے کی سماعت میں اب تک صوبائی حکومت و مختلف اضلاع کی انتظامیہ کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ جانوروں اور مرغیوں کی قیمتوں کو معمول پر لانے میں اپنا کردار ادا کریں۔۔عدالت ِعالیہ نے افغانستان کی سرحد سے متصل خیبرپختونخوا کے اضلاع کی انتظامیہ (ڈپٹی کمشنروں) کو 3 ہفتوں کا وقت دیا ہے کہ وہ جانوروں اور مرغیوں کی افغانستان سمگلنگ کے حوالے سے شکایات کا ازالہ کریں اور ایسے اقدامات کریں جن سے جاری سمگلنگ رک سکے۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ ٹرکوں اُور ڈاٹسن گاڑیوں میں لاد کر مال مویشیوں اور مرغیوں کی افغانستان ترسیل ہوتی ہے اُور متعلقہ شاہراہوں پر یہ آمدورفت دن رات جاری رہتا ہے‘ جو پشاور اُور خیبر کے اضلاع میں رہنے والوں کی اکثریت کی نظروں میں ہے۔ مذکورہ مقدمے میں اب تک فوڈ سیکرٹری خوشحال خان‘ جنہیں کسٹم کلکٹر ملک کامران کا نمائندہ (فوکل پرسن) قرار دیا گیا ہے اُور اُن ڈپٹی کمشنرز و اضلاع کے پولیس نگرانوں (ڈی پی اُوز) کو طلب کیا جبکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر جاوید اُور ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل سکندر حیات شاہ بھی پیش ہو چکے ہیں۔ فوڈ سیکرٹری کی جانب سے عدالت کو یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ متعدد متعلقہ آفیسرز نے ”وعدہ“ کیا ہے کہ وہ عدالتی احکامات پر عمل درآمد کریں گے۔ یہ طریقہئ بھی ذہن نشین رہے کہ مال مویشیوں اُور مرغیوں کو قبائلی اضلاع (افغانستان سے متصل علاقائی پٹی) کے راستے نقل و حرکت میں اُن گوداموں کا استعمال بھی کیا جاتا جو کبھی افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے تحت ہونے والی تجارت اور اِس میں بے قاعدگیوں کے لئے استعمال ہوتے تھے۔