مجسٹریسی نظام کی بحالی کے حوالہ سے کیس ا س وقت عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے 'گذشتہ دنوںوفاق اور پنجاب کی طرف سے نظام کی بحالی کی مخالفت سامنے آئی جس کے بعد فی الوقت اس نظام کی بحالی کی امیدیں ایک بارپھر معدوم ہوتی دکھائی دیتی ہیں اگر ایساہوتاہے تویہ بہت بڑی بدقسمتی ہوگی موجودہ حالات میں کہ جب ایک مرتبہ پھر بدامنی کاجن بوتل سے نکلنے کی کوشش میںمصروف ہے جبکہ مہنگائی کاجن قابو سے باہر ہوچکاہے پھر سے اسی آزمود ہ نظام کی بحالی کے لئے صدائیں بلندہورہی ہیں جوانگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کے بعدنافذ کرکے پھر کم و بیش ایک صدی تک چلاکردکھایا اور اس کی مدد سے انگریزوں نے محض چند سو افسران کے ساتھ برصغیر پر کامیابی کے ساتھ راج کیاآزادی کے بعد بھی اس نظام کو جاری رکھاگیا تاہم پھر یکلخت اس سسٹم کی چھٹی کردی گئی جس کے ساتھ ہی بدانتظامی ،بدامنی ،مہنگائی ،ملاوٹ اورچور بازاری کا جن بے قابو ہوکر پوری قوم کو نگلنے لگا مگر افسو س کہ حکمرانوں نے آنکھیںاورکان بندکئے رکھے اگر دیکھاجائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس سسٹم میںڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا عہدہ درحقیقت سیفٹی والووکی حیثیت رکھتا تھا آج بھی اگر ایگزیکٹیو مجسٹریسی کا نظام بحال کیاجائے تو صورتحال بہتر ہو سکتی ہے یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ صرف قیمتیں چیک کرنے سے کچھ نہیں ہوگا 'گورننس کنٹرول کرنے کیلئے مجسٹریسی رول انتہائی ضروری ہے
' موجودہ حالات میں پولیس' مجسٹریٹس ' انجینئر' ڈیپارٹمنٹس اور سول سوسائٹی کو مل کر کردار ادا کرنا ہوگا' کچھ حلقے مجسٹریٹس کے اختیارات پر معترض رہتے تھے لیکن یہ لوگ کیوںیہ بھول جاتے ہیں اگر مجسٹریٹس کے پاس عدالتی اختیارات تھے تو آئین اورقانون کے مطابق ہی تھے مجسٹیریل سسٹم کی بدولت اوورسائٹ کا نظام موجود تھا جب یہ نظام ختم ہوا تو گورننس خراب ہوتی چلی گئی مجسٹریٹ عدالتوں میں بیٹھ کر فیصلے کرنے کے ساتھ ساتھ انتظامی معاملات میں بھی اہم کردار ادا کیا کرتے تھے امن وامان کامسئلہ جب پیدا ہوتا تو مجسٹریٹ پولیس کے ساتھ ساتھ رہتا اور پولیس اس کی ہدایات پر عملدرآمد کی پابند ہوا کرتی تھی وہ ایک پورا ضلعی نظام تھا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ہوتے تھے پھر سی آر پی سی کے تحت تھانہ مجسٹریٹ تھے یہ افسران عدالتی اختیارات کے معاملہ میں ہائی کورٹ کو جواب دہ تھے جبکہ انتظامی اختیارات کے معاملہ میں ڈپٹی کمشنر کے سامنے پابند تھے ڈپٹی کمشنر پھر بھی ان سے پوچھ گچھ کر سکتا تھا' آپ کے تھانے کی حدود میں بدامنی کیوں ہے؟ گویا ایک مکمل نظام تھا' اب صرف ایک پہیہ چلانے سے کچھ نہیں ہوگا 'بھارت میں یہ نظام آج بھی چل رہا ہے اگر موجودہ صورتحال میں اس کو من وعن بحال کر دیا جائے تو کچھ نہ کچھ بہتری کی امید رکھی جانی چاہئے کہ اس سسٹم کے خاتمہ سے کافی مسائل پیدا ہوئے کیونکہ ڈی سی کا کردار بہت اور مضبوط تھا وہ نہ صرف ایک منتظم ہوا کرتا تھا بلکہ ریونیو کلیکٹر کے فرائض بھی انجام دیا کرتا تھا پھر بحیثیت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اس کے پاس انتظامی اختیارات بھی ہوا کرتے تھے یوں امن وامان کنٹرول کرنا اس کی ذمہ داری ہوتی تھی بہت سے سینئرافسران اس وقت حکومتی رٹ کی بحالی اور نفاذ کے لئے کوئی سنٹرل کوآرڈینیٹر ہی نہیں پولیس کا کردارPreventive ہر گز نہیں وہ تو واقعات کے بعد حرکت میں آتی ہے اسی مقصد کے لئے ڈپٹی کمشنر کا ادارہ تھا اس ادارہ کو جب راتوں رات ختم کردیاگیا تو وطن عزیز نے اس کی بھاری قیمت بھی ادا کی اس وقت جبکہ گڈگورننس کے لئے حکومت کی طرف سے کوششیں جاری ہیں تو ضرورت اس امرکی ہے کہ اس سسٹم کی فوری بحالی کے لئے آئینی ترمیم لائی جائے کیونکہ اس کے لئے سی آر پی سی کی بعض دفعات میں ترامیم کرنی پڑیں گی اگرماضی قریب میں فوجی عدالتوں کی توسیع کے معاملے پر وفاقی حکومت چاروںصوبوں اور تمام بڑی جماعتوںکو متحد کرسکتی ہے
تو مجسٹریسی نظام کی بحالی پر تو اس وقت اتفاق رائے کاحصول انتہائی آسان ہوچکاہے لہٰذا اگر حکومت اس حوالے سے بھی سنجیدگی کامظاہرہ کرتے ہوئے مجسٹریسی نظام کو بحال کراتی ہے تو نہ صرف بدانتظامی کے بطن سے پیداہونے والی برائیاں یعنی چوربازاری ،تجاوزات ،ملاوٹ ،مہنگائی وغیرہ پر قابو پایاجاسکتاہے بلکہ موجود ہ بدانتظامی اور مہنگائی کاگلا بھی کامیابی کے ساتھ گھونٹا جاسکتاہے 'مجسٹریسی نظام کو ایک ڈکٹیٹر کے دور میں بیک جنبش قلم ختم کیا گیا تھا اور اس وقت بھی تمام سیاسی جماعتوں نے اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے بارہا اس نظام کی بحالی کے مطالبات کئے' تقریباً تمام اہم جماعتیں اس آزمود ہ نظام کی بحالی پر متفق ہیں تو پھر مزید وقت ضائع کرنے کے بجائے اس حوالہ سے عملی اقدامات ناگزیر ہوچکے ہیں' اگروفاقی حکومت اس معاملے میں کوتاہی سے کام لے گی تو یہ اس قوم کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہوگی اس سلسلے میں میڈیاکو بھی کرداراداکرناچاہئے' نان ایشوز پروقت ضائع کرنے کے بجائے میڈیا کو اس اہم ترین ایشو پررائے عامہ بیدارکرنے کے ساتھ ساتھ حکومت پر بھی دبائو ڈالناچاہئے اس معاملہ پر وسیع تر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنا اپناکردار ادا کرناچاہئے' پی ٹی آئی ہمیشہ سے گڈ گورننس کانعرہ بلند کرتی رہی ہے 'اس ضمن میں یقیناموجودہ حکومت روز اول سے کوشاں بھی ہے کیاہی بہترہوکہ گڈ گورننس کاخواب شرمندئہ تعبیر کرنے کے لئے پی ٹی آئی خو د قائدانہ کردار ادا کرے دیگرجماعتیں یقینا اس سلسلہ میں اس کے ساتھ تعاون کریں گی اورتعاون کرناچاہئے بھی تاکہ مہنگائی ،بدانتظامی اور کسی بھی قسم کی بدامنی کے راستے مسدود کرنے کی کوششیں کامیابی سے ہمکنار کرائی جاسکیں ۔