گرمی کی شدت اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر ’اُف اُف‘ کرنے والوں کیلئے 2 خبریں ایسی ہیں‘ جن کی تفصیلات سے عیاں ہے کہ ملک میں توانائی بحران (بجلی کی پیداوار‘ ترسیل و خرید) سے جڑے مسائل جلد حل نہیں ہوں گے۔ پہلی خبر یہ ہے ’ملک گیر لوڈشیڈنگ‘ کی وجہ 1500 میگاواٹ کمی ہے اور دوسری خبر یہ ہے کہ بجلی کی قیمت مقرر کرنے کے وفاقی ادارے ’نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (NEPRA) نے مختلف تقسیم کار کمپنیوں (Discos) کیلئے نیا نرخنامہ جاری کیا ہے جس کے مطابق اکتوبر سے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں قریب تین (2.97) روپے اضافہ کیا جائے گا لیکن صرف یہی نہیں بلکہ ’شیڈول آف ٹیرف (بجلی کی قیمتوں سے متعلق نرخنامے) بتاریخ دو جولائی دوہزاراکیس کے مطابق بجلی کے صارفین پر ایک روپے پچیس پیسے کا ’نیا سرچارج‘ بھی عائد کیا گیا ہے تاہم اِس سرچارج کا اطلاق بجلی کے گھریلو صارفین پر نہیں ہوگا لیکن سہ ماہی کی بنیاد پر عائد ’ایڈجسٹمنٹ سرچارج‘ کی مد میں فی یونٹ ایک روپے بہتر پیسے کا اضافہ بجلی کے تمام صارفین بشمول گھریلو صارفین کو بھی منتقل کیا جائے گا۔ اِس مرحلے پر اُن گھریلو صارفین کیلئے رعایت کا اعلان کیا گیا ہے جن کے ماہانہ بل 300 یونٹ تک آتے ہیں اور ایسے صارفین کیلئے بجلی کی پرانی قیمتیں بحال رہیں گی لیکن اگر کسی صارف کا ماہانہ بجلی بل 300 یونٹس سے زیادہ ہوا تو فی یونٹ 1 روپے 72 پیسے کے حساب سے اُس کے تمام یونٹوں پر سرچارج کا اضافہ کر دیا جائے گا۔ ذہن نشین رہے کہ بجلی صارفین کی درجہ بندی سات قسم کے کنکشنوں (کمرشل‘ جنرل‘ انڈسٹریل‘ سنگل پوائنٹ سپلائی‘ عارضی سپلائی‘ صنعتوں کی رہائشی بستیوں اُور زرعی کنکشنوں) کی صورت کی جاتی ہے اور اِن سبھی درجات کیلئے بجلی کی فی یونٹ قیمت 2.97 روپے اضافے کی منظوری دی گئی ہے ماسوائے زرعی ٹیوب ویلوں کو دی جانے والی بجلی کے لئے فی یونٹ بجلی 2.66 روپے مہنگی ہوگی۔ صارفین کو سمجھنا چاہئے کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت کے علاوہ بھی کئی ایسے ٹیکسی اور سرچارجز ہیں‘ جن کا اثر مجموعی واجب الادأ بل پر پڑتا ہے جیسا کہ سہ ماہی کی بنیاد پر بجلی کی فی یونٹ قیمت پر عائد سرچارج پر نظرثانی کی جاتی ہے اور اِسے ’کواٹرلی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ نیپرا نے اِس سہ ماہی سرچارج میں بھی 1.72 روپے فی یونٹ اضافے کی منظوری (یکم اکتوبر سے) دی ہے اور اکتوبر سے سرچارج میں اضافے کی وجہ یہ ہے کہ پہلے سے عائد سرچارج جس کی شرح 1.62 روپے فی یونٹ ہے اُس میں 10 پیسے فی یونٹ اضافے کا فوری اثر صارفین پر منتقل نہ ہو۔ اِس سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی معیاد 30 ستمبر کو ختم ہو رہی ہے۔ اِس اضافے سے بجلی کے وہ صارفین بھی متاثر ہوں گے جو 300 یونٹ یا اِس سے کم بجلی استعمال کرتے ہیں۔ اگر مجموعی طور پر اضافے کی بات کی جائے تو بجلی کی قیمت کے علاوہ فی یونٹ 1.36 روپے اضافہ ہوگا۔بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے 135 ارب روپے کا فائدہ بجلی بنانے والی کمپنیوں کو ہوگا جبکہ ٹیکسوں اور سرچارج کی صورت میں حکومت کو آمدنی ہوگی۔ سالانہ بجٹ برائے مالی سال 2021-22ء میں نئے ٹیکس عائد نہ کرنے کا اعلان کیا گیا جس کی پابندی کرتے ہوئے طریقہئ کار یہ اختیار کیا گیا ہے کہ بجلی کے موجودہ نرخوں اور اُن پر عائد ٹیکسوں کی شرح میں ردوبدل (اضافے) کی منظوری دی گئی ہے اور یہ سب ’قانونی طور پر‘ سرانجام دینے کیلئے حال ہی میں منظور کئے گئے ایک قانون کا سہارا لیا گیا ہے جس کی روشنی میں حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی صارف کی استعمال شدہ بجلی پر سرچارج لگا سکتی ہے اور اِس سلسلے میں ’نیپرا‘ کا کردار نہ ہونے کا برابر ہے۔ عموماً حکمراں سیاسی جماعتیں اِس قسم کے سرچارجز کو انتظامی اخراجات اور ادارہ جاتی کام کاج قرار دیتی ہیں لیکن درحقیقت معاملہ یہ ہے کہ خریدی ہوئی بجلی کی فی یونٹ قیمت کیا ہونی چاہئے اِس کا تعین ’نیپرا‘ کرتا ہے‘ جس کی منظوری بھی حکومت ہی دیتی ہے لیکن بجلی کے ہر استعمال شدہ یونٹ پر ’سرچارج‘ حکومت بنا کسی مشاورتی عمل خود کرتی ہے اور اِس کا ’نیپرا‘ سے تعلق نہیں ہوتا۔ 2جولائی 2021ء کے روز نیپرا کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں جو اضافہ کیا گیا اُس کا اطلاق یکم اکتوبر 2021ء سے 30ستمبر 2022ء تک برقرار رہے گا جبکہ اِس دوران سہ ماہی بنیادوں پر حکومت کی جانب سے سرچارجز میں اضافہ ہوتا رہے گا۔پاکستان میں بجلی کا پیداواری و ترسیلی نظام پیچیدگیوں (خرابیوں) کا مجموعہ ہے کہ ہر حکومت کے دور میں ’بجلی کی پیداواری صلاحیت‘ میں تو اضافہ ہوتا ہے جس کے لئے نجی بجلی گھروں کو مراعات بھی دی جاتی ہیں لیکن بجلی کے ترسیلی نظام کی خاطرخواہ مرمت اور جدیدیت میں سرمایہ کاری نہیں کی جاتی‘ جس کی وجہ سے اربوں روپے کی بجلی چوری یا ضائع ہو جاتی ہے اور بجلی کے موجودہ ترسیلی نظام کو خاطرخواہ وسعت بھی نہیں دی جاسکتی جو شہروں اور ملحقہ دیہی علاقوں کی حد تک محدود ہے۔ عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں مالی سال 2019ء کے اختتام تک بجلی ملک کے 73.19 فیصد حصے میں آباد صارفین تک پہنچ رہی تھی اور ظاہر ہے کہ اِس کے بعد بجلی کے ترسیلی نیٹ ورک میں بمشکل ایک فیصد ہی اضافہ ہوا ہوگا‘ جو دور دراز علاقوں میں نہیں بلکہ پھیلتے ہوئے شہروں کی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کی صورت میں ہے۔ موسم گرما کے آغاز سے قبل وفاقی کابینہ کے کئی اراکین نے قوم کو یہ کہتے ہوئے اطمینان اور دلاسہ دلایا تھا کہ بجلی کی پیداوار قومی ضروریات سے زیادہ ہے لیکن 2 جولائی کو بجلی کی حاصل ہونے والی پیداوار اور طلب میں 6 ہزار سے 15 ہزار میگاواٹ تک کا فرق آیا جو گزشتہ چند ہفتوں کے دوران آنے والا انتہائی غیرمعمولی فرق ہے۔