مالی سال کے پہلے دن فنڈز کا اجراء۔۔۔۔

خیبر پختونخوا حکومت نے نئے مالی سال کے پہلے ہی دن تمام جاری ترقیاتی منصوبوں کیلئے سو فیصد فنڈز جاری کردیئے ہیں۔وزیراعلیٰ محمود خان نے مالی سال کی پہلے دن سو فیصد فنڈزکے اجراء کو صوبائی حکومت کا ایک تاریخ ساز اور انقلابی قدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ صوبائی حکومت کے اس اقدام سے عوام کی فلاح و بہبود کے ترقیاتی منصوبوں کی بروقت تکمیل کو یقینی بنایا جا سکے گااور ان کے ثمرات بلا تاخیر عوام تک پہنچ سکیں گے۔ وزیراعلیٰ نے تمام صوبائی محکموں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے متعلقہ ترقیاتی منصوبوں پر ٹائم لائنز کے مطابق عملی پیشرفت اور مالی سال کے آخر تک جاری کردہ ترقیاتی فنڈز کے سو فیصد استعمال کو یقینی بنانے کیلئے ابھی سے عملی اقدامات شروع کریں۔ کیونکہ ترقیاتی فنڈ مالی سال کے اختتام پر لیپس ہونے سے حکومت کی بدنامی ہونے کے ساتھ ترقیاتی سکیموں میں تاخیر سے قوم کا نقصان ہوتا ہے۔وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ اُن اقدامات کو خصوصی توجہ دی جارہی ہے جن کا براہ راست تعلق عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے سے ہے۔ نئے مالی سال کے بجٹ پر عمل درآمد سے صوبہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا اور لوگوں کی زندگیوں میں خوشحالی آئے گی۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ جاری ترقیاتی منصوبوں کی بروقت تکمیل حکومت کی ترجیحات میں سرفہرست ہے، اگلے دو سالوں میں متعدد میگا منصوبوں کے علاوہ عوامی فلاح و بہبود کے سینکڑوں دیگر منصوبے بھی مکمل کئے جائیں گے۔ صوبائی حکومت کی طرف سے یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ یکم جولائی سے جاری ترقیاتی منصوبوں کے لئے مجموعی طور پرکتنے فنڈز جاری کئے گئے وہ کونسے جاری منصوبے ہیں جنہیں حکومت رواں مالی سال کے اندر مکمل کرنا چاہتی ہے۔ ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں ان منصوبوں اور ان کی بروقت تکمیل کیلئے جاری کئے گئے فنڈز کی تفصیلات جاری کی جائیں گی تاہم یہ کریڈٹ بلاشبہ صوبائی حکومت کو جاتا ہے کہ مالی سال کے پہلے ہی روز ترقیاتی منصوبوں کیلئے وسائل کی فراہمی ملکی تاریخ میں پہلی بار ممکن بنائی گئی روایت یہی رہی ہے کہ جاری منصوبوں کے فنڈز مالی سال کے آخری مہینوں میں ختم ہوتے تھے۔ بجٹ میں ان کیلئے مزید فنڈز مختص کئے جاتے اور مالی سال کے تیسرے چوتھے مہینے میں خزانہ سے فنڈز جاری ہوتے تھے جس کی وجہ سے ان منصوبوں پرترقیاتی کام کئی مہینوں تک بند رہتا۔اور مدت تکمیل میں اضافے کی وجہ سے ان پر لاگت بھی بڑھ جاتی تھی۔ محدود وسائل، این ایف سی ایوارڈ میں صوبے کا حصہ اور بجلی کے خالص منافع کے بقایاجات ملنے میں تاخیر کے باوجود ترقیاتی منصوبوں پر کام بلاتعطل جاری رکھناصوبائی حکومت کے اچھے مالی نظم و ضبط کی ایک مثال ہے۔جاری ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ بجٹ میں منظور کی گئی نئی سکیموں کیلئے بھی وسائل کی دستیابی مالی سال کے ابتدائی مہینوں میں ممکن بنانے پر صوبائی حکومت کو توجہ دینی چاہئے تاکہ عوام بہبود کی نئی سکیموں پر فوری کام شروع ہوسکے اور ٹائم لائنز کے اندر ان کی تکمیل کو ممکن بنایاجاسکے۔ فنڈز کی دستیابی، پی سی ون اور نقشے میں تبدیلی اور دیگر وجوہات کی بناء پر ترقیاتی منصوبے اکثر تاخیر کا شکار ہوتے ہیں اور ان پر لاگت میں غیر معمولی اضافے سے صوبے کی معیشت پر بوجھ پڑتا ہے۔ پشاور ریپڈ بس سروس کی مثال ہمارے سامنے ہے حکومت نے ابتداء میں اس کی مدت تکمیل چھ مہینے مقرر کی تھی حالانکہ پشاور جیسے گنجان آباد شہر میں 36کلو میٹر طویل نئی ٹریک اور سٹیشنوں کی تعمیر اور تزین و آرائش اتنے قلیل عرصے میں ممکن ہی نہیں تھی۔یہ الگ بات ہے کہ اب پشاور میں اس فلیگ شپ منصوبے کی تکمیل کے بعد اس کے ثمرات سے شہری بھرپور اندازمیں مستفید ہورہے ہیں۔ توقع ہے کہ صوبائی حکومت کی معاشی ٹیم عوامی فلاح و بہبود کے دیگر منصوبوں کی مقررہ مدت اور وسائل کے اندر تکمیل کو یقینی بنانے کیلئے جامع حکمت عملی وضع کرے گی۔