رٹا بازی اورتعلیم کی زوال پذیری ۔۔۔۔

نظام تعلیم بتدریج زوال پذیری کی طرف گامزن ہے ماضی وحا ل میں حکومتوں کی طرف سے اقدامات تو کیے گئے مگر ایسے نیم دلانہ اقدامات کانتیجہ یقینا خاطر خواہ نہیں نکلا کرتا یہی وجہ ہے کہ تمام تر کوششوں اوردعوؤں کے باوجود معیار تعلیم میں بہتری کے امکانات کم ہی دکھائی دیتے ہیں اوراب تو رہی سہی کسر کورونا کے باعث کی جانے والی بندشوں نے پوری کردی ہے کسی آزاد ی سے قبل اور آزاد ی کے کچھ عرصہ بعد تک نظام تعلیم مستحکم بنیادوں پر استواررہا چنانچہ ٹاٹ پر پڑھنے والے بچے ہی اس ملک کے جج،جرنیل،بیوروکریٹ،سائنسدان بنتے رہے تب تعلیم دی جاتی تھی رٹے لگوانے کا کوئی تصور نہیں تھا یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ وطن عزیز میں تعلیم کی موجودہ صورت حال سے عموما ً وہ طلبہ بھی خوش نہیں رہتے جو امتیازی نمبروں سے کامیاب ہوکر ترقی کی نئی سمتوں کا سفر کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کو یاد نہیں رہتا کہ انہوں نے کیا یاد کیا تھا، کب کیا تھا اور اس سے مارک شیٹ کے پرکشش ہونے اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ پانے کے علاوہ انہیں کیا ملا۔ چونکہ تعلیمی نظام ہی ایسا ہے اس لئے مضمون اور موضوع کی فہم سے زیادہ مارک شیٹ پر درج مجموعی نمبرات اور فیصد کی اہمیت ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ جب ہمارے نوجوان بغرض ملازمت، انٹرویو کیلئے بلائے جاتے ہیں تو چاہے سرکا ری کمیٹی کے اراکین ہوں یا پھر نجی کمپنی کے اعلیٰ عہدیدار دونوں ہی اْن کے جوابات سے مطمئن نہیں ہوتے نجی ملازمتوں کی صورت میں پھر بہت سی کمپنیاں ”اِن ہاؤ س ٹریننگ“ دے کر اْنہیں متعلقہ منصب کیلئے تیار کرنے پر مجبور ہوتی ہیں گویا انہوں نے رٹے لگا کر جو ڈگریاں حاصل کی ہوتی ہیں وہ عملی زندگی میں اس کے کسی کام کی نہیں ہوتیں اسباق کو یاد کرنے کی بڑی اہمیت ہے مگر سمجھے بغیر یاد کرنے سے نہ تو اعتماد پیدا ہوتا ہے نہ ہی موضوع یا مضمون پر عبور حاصل ہوتا ہے۔ اس عمل کو عام بول چال میں رٹا ّ مارنا، رٹنا یا رَٹ لینا کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں روٹ (Rote)لرننگ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ ابتدائی جماعتوں میں پہاڑے، تاریخ کے سن عیسوی، گرامر کے اْصول، تاریخیں، ریاضی کے ضابطے وغیرہ کی حد تک تو یہ رجحان ٹھیک ہے مگر جب یہی رجحان طلبہ کے ساتھ سفر کرتا ہوا اگلی منزلوں تک پہنچتا ہے جہاں اْنہیں بہت سی چیزوں کو سمجھنے، اْن پر غور کرنے اور اْن سے کوئی نتیجہ نکالنے کی ضرورت ہوتی ہے تب یہ رجحان درجنوں نقصانات کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ روٹ لرننگ یعنی رٹا لگانے کاایک نقصان یہ ہے کہ اس سے ذہن محدود ہوجاتا ہے، کسی مسئلہ کو حل کرنے کی استعداد پیدا نہیں ہوتی، غوروخوض کی عادت مستحکم نہیں ہوتی اور جو یاد کیا اْسے بھول جانے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اس کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ جب طالب علم رٹی ہوئی چیزوں کی ڈور کا کوئی ایک سرا کھو دیتا ہے تب پوری ڈور اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے یا اس کیلئے بے معنی ہوجاتی ہے ماہرین بجاکہتے ہیں کہ رٹنے والے طالب علم کی فہم بھی محدود رہتی ہے۔ اْس نے جتنا یاد کیا، جو یاد کیا اور جس انداز میں یاد کیا وہی اس کا کل اثاثہ ہوتا ہے۔ اب اگر کوئی سوال گھما پھرا کر پوچھ لیا جائے یا کسی سبق سے اْس میں پیدا ہونے والی ممکنہ استعداد کی بنیاد پر اْسی سطح کا کوئی اور سوال کرلیا جائے تو اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑ جاتے ہیں۔ رَٹنے کی وجہ سے طالب علم میں وہ اعتماد بھی پیدا نہیں ہوتا جو اسباق کو سمجھ لینے کے بعد ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مخلص اساتذہ رَٹنے کی روش کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔ اس کے باوجود یہ روش عام ہے اور اس لئے عام ہے کہ مخلص اساتذہ کے طرز عمل کے برخلاف، ملک کا نظام ِ تعلیم اس کی بالواسطہ حوصلہ افزائی کرتا ہے ویسے بھی تعلیم بھی اب ہمارے ہاں کاروبار بن چکی ہے اساتذہ یا تو کاروبار کا حصہ بن چکے ہیں یا پھر محض تنخواہ دار ملازم اس بیچ جو سکھانے والا کردار تھا وہ غائب ہوچکاہے اب رٹا لگوا نے والے ہی ہرطرف دکھائی دیتے ہیں اس سے بچوں کی ذہنی استعداد سے محدو د ترہوچکی ہے رہی سہی کسر اب سوشل میڈیا اورموبائل نے پوری کردی ہے یوں محنت اورسیکھنے کارجحان تیز ی سے ختم ہوتاجارہاہے جو پورے معاشرہ کیلئے لمحہ فکریہ ہوناچاہئے ہر حکومت کی یہ خواہش رہی ہے کہ ایسے نوجوان آگے بڑھ کرملک کی ترقی میں حصہ لیں جو تخلیقی ذہن کے حامل ہوں، جو سوال کرنے کو ترجیح دیتے ہوں اورمروجہ طریقوں سے الگ نئے طریقے ایجاد کرکے ملک کے ترقیاتی عمل کو تیز تر کریں مگر اس خواب کی تعبیر کیلئے تعلیمی محاذ پر جس قسم کا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے کسی بھی حکومت نے اس پر توجہ نہیں دی ہے جس کانتیجہ سب کے سا منے ہے کہ تقریباً تمام تعلیمی اداروں میں رٹے لگوانے کی روایت جڑ پکڑ چکی ہے طلبہ کو سیکھنے سے زیادہ اچھے نمبروں کے حصول کی خواہش رہتی ہے اور موجودہ سسٹم میں ایساکرنے کیلئے ان کے پاس بہترین راستہ رٹا لگانے کاہے اوریوں شرح تعلیم تو بڑھتی جارہی ہے مگر معیار تعلیم بہت ہی تیزی کے ساتھ پستی کی طرف گامزن ہے جو اگلے چندسالوں میں بدترین نتائج سامنے لانے کا سبب بننے والاہے اس رجحان کا خاتمہ آخرکیسے ممکن ہے ا س حوالہ سے فی الوقت تنگی داماں کی وجہ سے بات ممکن نہیں اگلے کسی کالم میں تفصیل سے بات ہوگی۔