پاکستان میں طب (میڈیکل اینڈ ڈینٹل) تعلیم کے انتظامی امور بار بار کی کوششوں کے باوجود سلجھ نہیں رہے جس کی بنیادی وجہ ’مشاورت کا فقدان‘ ہے۔ اِس جانب حال ہی میں ”پاکستان ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز انسٹی ٹیوشنز (PAMI)‘ نے توجہ دلائی اور پاکستان کے نجی تعلیمی اداروں کی اِس نمائندہ تنظیم نے وزیراعظم پاکستان عمران خان سے مطالبہ کیا کہ وہ دخل اندازی کرتے ہوئے طب (میڈیکل اینڈ ڈینٹل) کی تعلیم کے نگران و منتظم ادارے ’پاکستان میڈیکل کمیشن‘ کے امور میں پائی جانے والی بے قاعدگیوں کاازالہ کروائیں‘ جن کی وجہ سے جملہ نجی میڈیکل و ڈینٹل کالجز میں تشویش پائی جاتی ہے۔پاکستان میں طب کی تعلیم کو کسی ایک زوایئے سے نہیں بلکہ مختلف صارفین و فریقین کے نکتہئ نظر سے الگ الگ دیکھنا چاہئے اور ہر طبقے کو درپیش مسائل و مشکلات اور تحفظات کیلئے درجہ بہ درجہ مشاورت ہونی چاہئے۔ اِس سلسلے میں 1: داخلہ کے خواہشمند اُمیدواروں‘ 2: اندرون ملک زیرتعلیم طلبا و طالبات‘ 3: بیرون ملک میڈیکل کالجوں میں زیرتعلیم طلبا و طالبات‘ 4: تدریسی عملے‘ 5: رجسٹرڈ ڈاکٹروں اور 6: نجی تعلیمی اداروں کے مؤقف کی روشنی میں دیکھنا چاہئے۔ پاکستان دینٹل اینڈ میڈیکل کونسل (PM&DC) کی جگہ ’پاکستان میڈیکل کمیشن (PMC)‘ تشکیل دیا گیا ہے لیکن قوانین و قواعد میں موجود سقم دور نہیں کئے گئے اور نہ ہی مذکورہ فریقین کی جانب سے شکایات و تحفظات کو خاطرخواہ توجہ دی گئی ہے۔ لمحہئ فکریہ یہ بھی ہے کہ جس بے قاعدگی کو ختم کرنے کے لئے ’پی ایم اینڈ ڈی سی‘ کو تحلیل کر کے ایک نیا ادارہ ’پی ایم سی‘ تخلیق کیا گیا وہ مقصد بھی تاحال حاصل نہیں ہوا ہے اور ہر سال داخلوں سے لیکر اندرون و بیرون کے نجی و سرکاری میڈیکل کالجوں میں داخلوں کے خواہشمند یا زیرتعلیم طلبا و طالبات دیواروں سے ٹکریں مارتے ہوئے اپنی قسمت کو کوستے نظر آتے ہیں! عجیب صورتحال ہے کہ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند طلبا و طالبات میں سے دس فیصد سے بھی کم کو داخلہ مل پاتا ہے جبکہ نہ تو نئے میڈیکل کالجز بن رہے ہیں اور نہ ہی موجودہ میڈیکل کالجوں میں نشستوں کی تعداد میں اضافہ کیا جا رہا ہے‘ جس کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ موجودہ تعلیمی اداروں میں دوسری شفٹ شروع کر کے زیرتعلیم طلبہ کی موجودہ تعداد کو دگنا کر دیا جائے۔پاکستان میڈیکل کمیشن نے ’نیشنل میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل‘ کے فیصلوں کی روشنی میں جو نئے فیصلے کئے ہیں وہ ’ہسپتالوں کی منظوری اور بطور تدریسی اداروں وابستگی کے لئے ایکریڈیشن سٹینڈرڈز‘ نیشنل لائسینسنگ ایگزیم (NLE)‘ میرٹ کیلکیولیشن اُور ’اے لیول‘ کی تعلیم حاصل کرنے والوں سے متعلق امور ہیں کہ اے لیول کا امتحان دینے والوں کو کس طرح میڈیکل کالجوں میں داخلہ دیا جائے جبکہ ’اے لیول‘ کا نتیجہ فروری 2021ء میں متوقع ہے اور میڈیکل کالجوں میں داخلوں کا عمل زیادہ سے زیادہ جنوری 2021ء کے وسط تک مکمل کرنے کے بارے میں پہلے ہی منصوبہ بندی کی جاچکی ہے۔ ’پی ایم سی‘ خود ہی قواعد بناتی ہے پھر اِن قواعد میں خود ہی تبدیلیاں کرتی ہیں ’میڈیکل کمیشن‘ کو چاہئے کہ یا تو ’MDCAT‘ کو ختم کرے یا پھر طلبہ کی اہلیت جانچنے کیلئے نمبروں کی بنیاد پر طے شدہ طریقہئ کار کو تبدیل کرے جس میں ’ایف ایس سی(FSc)‘ کی سطح تک حاصل کردہ نمبروں کی بنیاد پر مقررہ شرح (33 فیصد) سے تعین کیا جاتا ہے۔ اِسی طرح نیشنل لائسنینگ ایگزیمینیشن (NLE) کو بھی اُس وقت تک معطل کرنا چاہئے جب تک اِس سلسلے میں جملہ فریقین سے مشاورتی عمل مکمل نہیں ہوتا۔ اِس سلسلے میں نجی تعلیمی اداروں کی نمائندہ تنظیم ’پامی‘ نے 2026ء تک نئے داخلوں کو پرانے طریقے سے کرنے اور 2026ء تک اہلیت جانچنے کے ایک سے زائد پیمانوں کو کسی ایک کسوٹی پر لانے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔پاکستان میڈیکل کمیشن قواعد و ضوابط کا خوبصورت مجموعہ ہے لیکن پاکستان کے زمینی حقائق یکسر مختلف ہیں۔ اصولاً ہر نجی و سرکاری میڈیکل کالج کو بالکل ویسا ہی ہونا چاہئے جیسا کہ ’پی ایم سی‘ کے قواعد میں تحریر ہے اور ہر سال اہل ترین طلبا و طالبات کو داخلے ملنے چاہیئں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اہل ترین ہونے کے باوجود بھی طلبا و طالبات کی بڑی تعداد داخلے سے محروم رہ جاتی ہے جبکہ نجی تعلیمی ادارے اپنی سرمایہ کاری کا زیادہ منافع حاصل کرنے کیلئے فیسوں کی شرح میں سوفیصد اضافہ چاہتے ہیں اور جب تک اِس اضافے کی منظوری نہیں دی جاتی اُس وقت تک طب کی تعلیم کے معیار میں سرمایہ کاری نہیں ہوگی‘ جو انتہائی ضروری ہے کیونکہ کئی نجی ادارے دو دہائیوں سے زائد عرصے سے قائم ہیں اور اُن کے ہاں فراہم کی جانے والی سہولیات اور بنیادی ضروریات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ’پی ایم سی‘ کے سخت گیر و یک طرفہ فیصلوں کی وجہ سے گزشتہ تعلیمی سال میں کئی ڈینٹل کالجوں میں نشستیں موجود ہونے کے باوجود داخلے نہیں ہوسکے۔ اِسی طرح ’MDCAT‘ امتحان میں کامیاب ہونے کیلئے کم سے کم نمبروں کا تناسب 60 فیصد رکھا گیا تھا جسے بڑھا کر آئندہ تعلیمی سال (2022ء) کے لئے 65فیصد کر دیا گیا ہے جبکہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ ’ایم ڈی کیٹ‘ میں حاصل کردہ نمبروں پر کامیابی کی شرح بڑھائی جائے یعنی پاسنگ نمبروں کو 60فیصد سے کم کیا جائے۔