افغانستان میں خانہ جنگی کی صورتحال برقرار ہے جہاں سے غیرملکی افواج کا انخلأ جیسے جیسے قریب آ رہا ہے‘ حکومت اور طالبان کے درمیان ایک زیادہ سے زیادہ افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے کی عسکری کوششیں بھی تیز ہو رہی ہیں جبکہ عالمی برادری کے ہم آواز پاکستان کی جانب سے افغانستان کی جملہ سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر (بذریعہ مذاکرات) مسئلے کے حل کا مشورہ دیا گیا ہے تاکہ قیام امن کا ہدف حاصل ہوسکے اور افغانستان میں امن کا مطلب خطے کے ممالک بالخصوص پاکستان میں کی داخلی سلامتی کا مستحکم ہونا ہے۔ غیرملکی افواج کی واپسی کے آخری مرحلے میں طالبان زیادہ طاقت‘ صلاحیت اور منصوبہ بندی کا مظاہرہ کر رہے ہیں‘ جیسے اُنہوں نے اِس وقت کے بارے میں پہلے سے سوچ رکھا تھا اور یہی وجہ ہے کہ طالبان کی پیشرفت ملک کی سرحدوں پر قبضہ کرنے کے بعد مرکزی شہروں اور دارالحکومت کابل کی جانب جاری ہے۔ افغان خانہ جنگی کے اس تناظر میں مہاجرین کی پاکستان آمد بھی ناگزیر ہے لیکن اس مرتبہ اسلام آباد افغان مہاجرین کے لئے اپنی سرحد کھولنے کے حق میں نہیں اور اگر حالات کے ہاتھوں مجبور ہوا تو پاکستان مہاجرین کو اُسی طرح اپنے ہاں آنے کی اجازت دے گا جس طرح ایران نے روسی افواج کے انخلأ کے بعد دیا تھا اور اِس میں سرحد سے متصل خیمہ بستیوں کو خاردار تاروں کی چاردیواری لگا کر بند کیا گیا‘ جہاں آباد افغان مہاجرین کو پاکستان کی طرح ایران کے کسی بھی حصے میں آمدورفت کی اجازت نہیں تھی۔ مہاجرین کی میزبانی کے اِس طرزعمل کو ’ایرانی ماڈل‘ کہا جاتا ہے جو فی الوقت پاکستان کے منصوبہ سازوں کے زیرغور ہے۔ رواں ہفتے ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے وزیر داخلہ شیخ رشید نے بتایا تھا کہ پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کی متوقع نئی لہر کا سامنا کرنے کی تیاری کر لی ہے اور اِس مرتبہ ماضی کی طرح پاکستانی سرحد نہیں کھولی جائے گی جبکہ مہاجرین کی امداد کرنے والے عالمی اداروں کو سہولیات فراہم کی جائیں گی کہ وہ افغان علاقوں ہی میں قائم خیمہ بستیوں میں ضرورت مندوں کی مدد کر سکیں لیکن اگر افغانستان میں امن و امان کی صورتحال زیادہ بگڑتی ہے تو پاکستان اپنی سرزمین میں پناہ گزینوں کے داخلے پر پابندی لگاتے ہوئے سخت کنٹرول اور نگرانی کے ساتھ افغان سرحدی علاقوں میں عارضی بستیاں قائم کرے گا اور حکومت ان کیمپوں میں مہاجرین کی آبادی کی ضروریات کے لئے مؤثر انتظامات کرے گی‘ جس میں ’ایرانی ماڈل‘ کی پیروی بھی شامل ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کی ایک رپورٹ کے مطابق ایران میں آٹھ لاکھ افغان مہاجرین موجود تھے‘ وہ سب 1980ء کے دہائی میں ایرانی سرحدی علاقوں میں قائم گاؤں میں رہ رہے تھے اور انہیں شہروں اور قصبوں میں آباد ہونے یا ایران کے طول و عرض میں اپنی مرضی کے مطابق سفر کرنے کی اجازت نہیں۔ پاکستان ایرانی ماڈل میں کس قدر سنجیدہ ہے اور اِس سلسلے میں انتظامات کو کس حد تک آخری شکل دے رہا ہے‘ اِس کا اندازہ چار جولائی کے روز وزیر اعظم عمران خان اور جمہوری اسلامی ایران کے نومنتخب صدر ابراہیم رئیسی کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہے‘ جس میں دونوں ممالک کی قیادت نے افغانستان کی بگڑی داخلی صورتحال اور بالخصوص افغان مہاجرین کی میزبانی کے حوالے سے تبادلہئ خیال کیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے صدارتی انتخاب میں کامیابی پر ابراہیم رئیسی کو مبارکباد بھی پیش کیا تاہم بات چیت کا بیشتر دورانیہ (اطلاعات کے مطابق) افغانستان میں بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورتحال بابت بات چیت سے ہوا۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان اور ایران کو افغانستان کی داخلی صورتحال پر یکساں تشویش ہے اور دونوں ممالک برادر اسلامی ملک میں ہونے والے خون خرابے اور عوام کی مشکلات کا پائیدار و یقینی حل چاہتے ہیں۔ افغانستان میں بدامنی کا مطلب منفی نتائج کی صورت پاکستان اور ایران دونوں ہی کو متاثر کرے گا اور ماضی کے تلخ تجربات اِس بات کا بیان ہیں کہ کس طرح افغانستان میں خانہ جنگی اور غیرملکی افواج کی عسکری مہمات نے خطے کے ممالک کی معیشت و معاشرت کو متاثر کیا۔ پاکستان اور ایران کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطہ اپنی جگہ خوش آئند ہے کہ دونوں ممالک کی قائدین نے مہاجرین کی میزبانی کے حوالے سے اپنے اپنے تجربات کا احوال بیان کیا اور بات چیت میں پاکستان کی جانب سے ’ایرانی ماڈل‘ اختیار کرنے پر اتفاق کا عوامی مطالبہ ایک عرصے سے کیا جا رہا تھا۔پاکستان افغان مہاجرین کے حوالے سے تیاریاں مکمل کئے بیٹھا ہے جس کیلئے وزارت داخلہ‘ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور دیگر متعلقہ محکموں کے عہدیداروں پر مشتمل ایک اعلیٰ سطحی ٹیم بنائی گئی ہے جو عنقریب ایرانی ماڈل کا مشاہدہ اور اِس کے کامیاب پہلوؤں کو عملاً دیکھنے کے لئے ایران کا دورہ بھی کرے گی۔ پاکستان کی جانب سے پاک افغان سرحد کے بیشتر حصے پر باڑ لگا دی گئی ہے‘ جس سے غیرروایتی راستوں کا استعمال کرتے ہوئے غیر قانونی نقل و حرکت قریب ناممکن ہوگئی ہے تاہم اِس باڑ کی نگرانی اور اِسے عبور کرنے کے آسان مقامات پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اِس سلسلے میں چیف کمشنر برائے افغان مہاجرین سلیم خان کا بیان آن دی ریکارڈ موجود ہے جس میں اُنہوں نے کہا ہے کہ فی الحال پاک افغان سرحد پر صورتحال تشویشناک نہیں لیکن اگر افغانستان کی داخلی صورتحال مزید خراب ہوتی ہے تو اِس سلسلے میں بین الاقوامی امدادی تنظیمیں اسلام آباد کو آگاہ کریں گی اور اُنہی کی تجویز پر مہاجر بستیاں بنائی جائیں گی۔ اگرچہ پاکستان‘ اقوام متحدہ کے مہاجرین کے کنونشن 1951ء اور 1967ء کے پروٹوکول پر دستخط کنندہ نہیں تھا لیکن اس کے باوجود پاکستان چار دہائیوں سے زیادہ عرصے تک 30لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے اور اِس قدر طویل میزبانی کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل میں اَمن و اَمان کی خراب صورتحال بھی شامل ہے تاہم قابل تحسین و قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے انصار نے افغان مہاجرین کے ساتھ جس حسن سلوک کا مظاہرہ کیا وہ انسانی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور آج پاکستان کے کسی بھی شہر میں مقامی و غیرمقامی (مہاجر) کے درمیان تمیز و تفریق نہیں پائی جاتی اور نہ ہی امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے تاہم پاکستان دشمن قوتیں مہاجرین کی آڑ میں پاکستان کی داخلی سلامتی کیلئے خطرات پیدا کرتی ہیں۔ دیر آئد درست آئد کے مترادف پاکستان کے فیصلہ سازوں نے اِس مرتبہ ممکنہ طور پر آنے والے نئے افغان مہاجرین کی نقل و حرکت محدود رکھنے کا فیصلہ کیا ہے‘ جس کے لئے ایران کی طرز پر افغان مہاجرین کی نقل و حرکت سرحدی علاقوں میں قائم خیمہ بستیاں میں محدود کرنے کا اصولی فیصلہ اپنی جگہ لیکن اِس کیلئے نہ تو مقامات کا انتخاب کیا گیا ہے اور نہ ہی پاکستان کے پاس اس قدر مالی وسائل موجود ہیں کہ وہ سرحدی علاقوں میں لاکھوں افراد کے لئے پینے کے پانی‘ نکاسیئ آب‘ صفائی‘ علاج معالجے‘ خوراک و تعلیم‘ مساجد اور تجارتی مراکز جیسی بنیادی سہولیات کا خاطرخواہ بندوبست نئی بستیوں میں کر سکے!