خانہ جنگی کے مہیب سائے۔۔۔۔

افغانستان سے امریکہ اور نیٹونے اپنی افواج یکم ستمبر کی مقررہ تاریخ سے پہلے نکال لی ہیں۔ غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی اور کشیدگی میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ افغان طالبان نے ملککے 421اضلاع میں سے ڈیڑھ سو اضلاع پر قبضہ کرلیا ہے۔ جب سے امریکی صدر جوبائیڈن نے افغانستان کو ہمیشہ کی جنگ قرار دیتے ہوئے وہاں سے اپنی فوجوں کی واپسی کا اعلان کیا ہے تب سے طالبان زیادہ سے زیادہ علاقوں کو اپنے تسلط میں لانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔لغمان، قندہار، پکتیا اور بدخشاں میں طالبان کی فتوحات اس لیے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں کہ یہ امریکہ کے اتحادی سرداروں کے مضبوط گڑھ رہے ہیں جنہوں نے 2001 میں طالبان کو شکست دینے میں امریکہ کی مدد کی تھی۔ بدخشاں عوامی کونسل نے افغان فوج کی پسپائی اور فرار پرافسوس کرتے ہوئے کہا کہ طالبان بغیر لڑے ہی جنگ جیت رہے ہیں۔طالبان نے غیر ملکی افواج کے انخلاء کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے افغان امن عمل میں آنے والے ہفتوں میں تیزی آنے کی توقع ظاہر کی ہے۔طالبان کی سرگرمیوں میں تیزی کا مقصد امن مذاکرات میں اپنے زیادہ مطالبات منوانا ہے۔بین الافغان امن مذاکرات کب اور کہاں ہوں گے اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا اگریہ معاملہ افغان حکومت اور متحارب گروپوں پر چھوڑ دیا گیا تو امن معاہدے کا مستقبل قریب میں کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ اس خطے کو خانہ جنگی سے بچانا ہے تو عالمی برادری کو افغانستان میں قیام امن اور وسیع البنیاد قومی حکومت کے قیام کیلئے مداخلت کرنی ہوگی۔ اس حوالے سے امریکہ اور نیٹو کے ساتھ افغانستان کے پڑوسی ملکوں پر بھی بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ افغانستان میں امن کی بحالی نہ صرف افغان قوم بلکہ خطے کے تمام ممالک کے مفاد میں ہے۔ اگر خانہ جنگی بڑھتی ہے تو پڑوسی ممالک پاکستان، ایران اور تاجکستان کو مزید پناہ گزینوں کا بوجھ برداشت کرنا ہو گا۔ اگرچہ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ ملنے والی اپنی سرحدیں سیل کرنے کا عندیہ دیا ہے تاہم بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کی آمد پر پاکستان کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر انہیں پناہ دینا ہوگی۔جبکہ گذشتہ چالیس سالوں سے 35لاکھ افغان پناہ گزین پاکستان میں مقیم ہیں۔پاکستان نے امریکہ سے مطالبہ کیاتھا کہ فوجی انخلاء کے بعد افغانستان کی بحالی و آبادی کاری پروگرام میں مہاجرین کی واپسی کو بھی شامل کیا جائے۔ مگر امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی ایک بار پھر افغانوں کو باہم دست و گریباں اور تباہ حال چھوڑ گئے۔پاکستان کیلئے پرانے مہاجرین کی واپسی درد سر بنی ہوئی تھی اب خانہ جنگی کی صورت میں مزید سات سے دس لاکھ افغان مہاجرین کی پاکستان آمد کا امکان ہے۔اتنی بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کو کیمپوں تک محدود رکھنا اور انہیں بنیادی انسانی سہولیات کی فراہمی بہت مشکل کام ہے۔ اقوام متحدہ، یو این ایچ سی آر اور عالمی برادری کو افغانستان میں ممکنہ انسانی المیے کو روکنے کیلئے مداخلت کرنی چاہئے پورے خطے کو مسائل، مشکلات اور پریشانی میں مبتلا کرنے کا آخر کیا جواز بنتا ہے۔