پشاور کہانی: خستہ حالی۔۔۔۔۔

جنوری 2020ء وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے ’احیائے پشاور (Peshawar Revival Plan)‘کے نام سے حکمت ِعملی کی منظوری دی‘ جس کے تحت پشاور کی تاریخ و ثقافت‘ خوبصورتی‘ سیاحت‘ آبادی کی ضروریات اور تاریخی و ثقافتی ورثے کے تحفظ و بحالی پر مشتمل 7 اہداف کا تعین کیا گیا جنہیں ’سیون آر (7-R) یعنی ریمو‘ ریپیئر‘ ری الائن‘ رینویٹ‘ ریسٹور‘ اور ریوئیو‘ کا نام دیا گیا۔ پشاور کے حوالے سے سوچ بچار کا عمل شروع ہوا تو اُمید تھی کہ اِس کے ’عملی نتائج‘ بھی ظاہر ہوں گے لیکن صوبائی حکومت کی جانب سے ’اعلیٰ سطحی توجہ‘ کے باوجود ”پشاورکے مسائل کی شدت میں آبادی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔’احیائے پشاور حکمت عملی‘ پر پیشرفت کا جائزہ لینے کیلئے طلب کردہ حالیہ اجلاس میں متعدد فیصلے ہوئے۔ 1: نمک منڈی‘ قصہ خوانی گھنٹہ گھر اور عیدگاہ کی تاریخی حیثیت بحال کی جائے جبکہ اگر اِن تینوں اور دیگر مقامات کو کسی ایک چیز سے خطرہ ہے تو وہ تجاوزات ہیں جنہوں نے ایک تو رہائشی و تجارتی علاقوں کے درمیان تمیز ختم کر دی ہے اور دوسرا اندرون شہر کے ہر بازاراور گلی کوچے کی گنجائش سے زیادہ کشادگی ضروری ہے۔ 2: اہل پشاور کیلئے رنگ روڈ اور ہزارخوانی کے مقامات پر دو تفریحی سبزہ زار بنائے جائیں جبکہ پہلے سے موجود باغات اور سبزہ زار کی واگزاری اپنی جگہ درکار ہے۔ 3: اندرون شہر کی 2 گلیوں کو ماڈل گلیاں بنایا جائے‘ جس سے قبل وزیراعلیٰ اندرون شہر کا دورہ کریں گے اور ماڈل گلیوں کے لئے مناسب مقامات کا انتخاب کریں گے 4: پشاور کی تاریخی حیثیت کی بحالی کے ساتھ عوام میں شعور بھی اُجاگر کیا جائے۔اور خلاصہئ کلام یہ ہے کہ پشاور کسی کی ترجیح نہیں رہی جبکہ اِس کے وسائل سے ہر  کوئی اپنی اپنی قدرت و اختیار کے مطابق فائدہ اٹھا رہا ہے۔ احیائے پشاور حکمت عملی کے نام سے پشاور کے بارے میں جس دردمندی سے سوچا گیا ہے اُسے پایہ تکمیل تک پہنچانے سے قبل ماضی سے ٹوٹا ہوا رشتہ بحال کرنا پڑے گا۔ بطور حوالہ ’ثقافتی راہداری‘ کے نام سے تجربے کے نتائج موجود ہیں۔ مذکورہ منصوبے (کلچرل ہیرٹیج ٹریل) اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP) کے ’اربن پلاننگ یونٹ‘ کی جانب سے فراہم کردہ مالی و تکنیکی امداد کا شاہکار تھا جس پر کام کا آغاز دسمبر 2017ء میں شروع کیا گیا اور اِسے چند ماہ بعد جون 2018ء میں مکمل کرتے ہوئے عوام کیلئے کھول دیا گیا۔ پشاور کی اِس ثقافتی راہداری کیلئے لاہور اور دیگر شہروں میں ’آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک‘ کی جانب سے کئے گئے ترقیاتی کاموں کا مدنظر رکھا گیا۔ مذکورہ منصوبے کا نکتہئ آغاز ’گورگٹھڑی‘ جبکہ اختتام ’گھنٹہ گھر‘ پر ہوا اور حکمت عملی یہ تھی کہ اِسے چوک یادگار سے ہوتے ہوئے قصہ خوانی بازار تک لیجایا جائے گا لیکن مذکورہ ثقافتی راہداری جس میں 40 پرانے مکانات اور 87 عمارتوں کی ظاہری خوبصورتی (نقل بمطابق اصل) بحال کی گئی‘ خاص بات یہ ہے کہ ثقافتی راہداری پر لاگت کا ابتدائی تخمینہ 513 ملین روپے تھا لیکن اختتام پر 707ملین روپے خرچ ہوئے کیونکہ اِس میں اُنیسویں صدی کے یادگار ’محلہ سیٹھیان‘ کو بھی شامل کیا گیا جہاں سال2006ء میں آثار قدیمہ نے ایک گھر خرید رکھا ہے جو 1850ء اور 1884ء کے درمیان (34 سال کے عرصے میں) تعمیر ہوا اور اِس سے 2006ء تک بطور نجی سکول استفادہ کیا جاتا رہا اور بحالی کے بعد پشاور آنے والے غیرملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہتا ہے‘ فرش‘ فٹ پاتھ‘ لائٹنگ پولز‘ نکاسیئ آب اور پودوں کے علاوہ جن بازاروں کے داخلی دروازے اور جن مکانات کی ظاہری خوبصورتی پشاور کے روایتی طرزتعمیر کے مطابق ایک جیسی مماثلت کو ذہن میں رکھتے ہوئے بحال کی گئی اُن میں سے اکثر اپنا رنگ روپ کھو چکے ہیں اور اگر ’احیائے پشاور حکمت عملی‘ کے تحت اندرون شہر کے کسی حصے میں چند محلوں کا انتخاب کیا جاتا ہے اور اُن کی بحالی پر کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں تو اِس سے قبل ’ثقافتی راہداری (گورگٹھڑی تا گھنٹہ گھر)‘ کی ’خیرخبر‘ لینی ضروری ہے جس کا ’حال احوال‘ یہ ہے کہ ہر تعمیر اور خوبی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے کہ پشاور کو جس قدر ”بنانے‘ سنوارنے‘ سجانے اور نکھارنے“  کی کوشش کی جاتی ہے یہ اُتنا ہی خستہ حال ہو رہا ہے! نئے ترقیاتی و تعمیراتی منصوبوں کے متعلق غوروخوض اور فراخدالی سے مالی وسائل مختص کرنا اپنی جگہ اہم لیکن اگر مکمل شدہ منصوبے مثالی حالت میں نہیں اور تعمیرات کا معیار بھی غیر پائیدار ہے تو سب سے پہلے ’ژرف نگاہی‘ سے ماضی و حال کے جاری ترقیاتی کاموں کا جائزہ لینا چاہئے۔ تاکہ پشاور کی خوبصورتی اور ثقافت کو اجاگر کرنے کے حوالے سے جو کام ہو رہا ہے اس کے ثمرات سامنے آئیں اور سیاحت کو فروغ دینے کا مقصد بھی حاصل ہو جائے تاہم ضروری ہے کہ اس ضمن میں مربوط اور منظم منصوبہ بندی ہو۔