خیبرپختونخوا میں حالیہ ’موسم برسات (مون سون)‘ کے دوران 4 کروڑ 11 لاکھ 94 ہزار سے زائد پودے لگائے جائیں گے اور اِس مرتبہ حال ہی میں ضم ہوئے قبائلی اضلاع میں بھی بڑے پیمانے پر شجرکاری کی جائے گی۔ مون سون شجرکاری کیلئے صوبے کو 3 حصوں (ریجنز) میں تقسیم کیا گیا ہے۔ حکمت عملی یہ ہے کہ ہر ضلع میں ’ڈپٹی کمشنروں‘ کی زیرنگرانی شجرکاری مہمات مکمل کی جائیں گی اور تین ریجنز میں سے پہلے ریجن میں ڈھائی کروڑ‘ دوسرے میں ایک کروڑ اور تیسرے ریجن میں 48 لاکھ سے زائد پودے لگائے جائیں گے۔ اِس مرتبہ شجرکاری مہم کی خصوصیت یہ ہوگی کہ اِس میں صرف دیہی اور پہاڑی علاقوں ہی کا انتخاب نہیں کیا گیا بلکہ شہری علاقوں میں بھی شجرکاری کے اہداف مقرر کئے گئے ہیں اور ایسا شاید پہلی مرتبہ دیکھنے میں آئے گا کہ شہری علاقوں میں شجرکاری ہو گی‘ جس کیلئے درکار انسانی و تکنیکی وسائل مختص کرنے کے لئے منصوبہ بندی کو حتمی شکل دیدی گئی ہے اور اب انتظار مون سون کے آغاز کا ہے۔ اِس سلسلے میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے خصوصی ہدایات جاری کی ہیں کہ ”تمام حکومتی ادارے ’مون سون شجرکاری مہم‘ میں ایسا مثالی تعاون کریں کہ اِس مرتبہ تاریخی شجرکاری ہو۔“ صوبائی فیصلہ سازوں نے ہر ضلع کے نگرانوں سے شجرکاری مہم کی تکمیل کی اسناد بھی طلب کرنے سے متعلق لائحہ عمل وضع کیا ہے تاکہ شجرکاری کاغذوں میں نہ ہو بلکہ اِس کے حقیقی ہونے کا دستاویزی ثبوت بھی ہو اور اگر کسی ضلع میں بے قاعدگی پائی گئی تو اِس شجرکاری سند کے مطابق قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے۔تحریک انصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت ’شجرکاری مہمات‘ کو جس سنجیدگی سے لے رہی ہے اُس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی لیکن گزشتہ برس (دوہزاربیس) 17 جولائی کے روز وزیراعظم عمران خان نے کہوٹہ میں درخت لگا کر مون سون شجرکاری مہم کا آغاز کیا اور کہا تھا کہ ”حکومت رواں برس 20 کروڑ پودے لگائے گی جو 10 ارب درخت لگانے کی حکمت ِعملی کا حصہ ہے۔“ وزیراعظم نے مختلف اضلاع میں ’کورونا ریلیف ٹائیگر فورس‘ کے رضاکاروں کو بھی مون سون شجرکاری مہم کا حصہ بنانے کے احکامات جاری کئے تھے لیکن جس بڑے پیمانے پر اعلانات ہوئے اُس قدر بڑے پیمانے پر شجرکاری نہیں ہوئی۔ اگر گزشتہ برس کے مون سون میں قومی سطح پر 20 کروڑ پودے لگائے گئے تو رواں برس کیلئے اِس ہدف میں اضافہ ہونا چاہئے۔ ذہن نشین رہے کہ گزشتہ برس خیبرپختونخوا میں مون سون 24 جولائی سے شروع ہوا تھا جبکہ رواں برس (2021ء) کے لئے محکمہئ موسمیات کی پیشنگوئی کے مطابق ”مون سون قدرے تاخیر سے شروع ہوگا لیکن یہ جولائی کے مہینے ہی میں شروع ہونا ہے اور ستمبر تک جاری رہے گا جس میں سب سے زیادہ بارشیں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ہوں گی۔ پاکستان میں جنگلات کا رقبہ ملک کے کل رقبے کا چار فیصد سے بھی کم ہے جبکہ عالمی معیار یہ ہے کہ کسی بھی ملک کا کم سے کم پچیس فیصد رقبہ جنگلات سے ڈھکا ہوا ہونا چاہئے۔ پوری دنیا میں جنگلات کی شرح کا اندازہ لگایا جائے تو یہ قریب اُنتیس فیصد ہیں۔ اس طرح یہ واضح ہے کہ جنگلات کے رقبے کے لحاظ سے بھی پاکستان بہت پیچھے ہے اور یہی وجہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں تیزی سے ظاہر ہو رہی ہیں اور مون سون کے موسم میں جبکہ بارشیں تناسب سے زیادہ ہونی چاہیئں لیکن ماضی کی طرح مون سون بارشوں کا دورانیہ طویل نہیں ہوتا اور نہ ہی مون سون بارشیں جو اپنے تسلسل کی وجہ سے مشہور ہوتی تھیں کہ ایک بار شروع ہوں تو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی تھیں اور جل تھل ایک ہو جایا کرتے تھے لیکن آج کی صورتحال تبدیل ہے اور صرف موسم ہی نہیں بلکہ بارشیں بھی ہم سے ناراض دکھائی دے رہی ہیں۔ شاعر احمد فراز نے شاید اِسی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”ابرِ بہار اب کے بھی برسا پرے پرے …… گلشن اجاڑ اجاڑ ہیں‘ صحرا ہرے ہرے!“پاکستان میں کسی زمانے میں دیودار‘ بلیو پائن‘ شیشم‘ کیکر‘ پیپل‘ پھلاہی‘ کاؤ‘ وان‘ کھجری‘ کھیر‘ ببول‘ پاپولر‘ برنا‘ جامن‘ آم کے درخت شہری علاقوں میں بھی وافر تعداد میں دکھائی دیتے تھے لیکن آج ہر طرف سفیدے کے درخت نظر آتا ہے‘ جنہیں دیگر درختوں کے مقابلے ایک تو زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے‘ دوسرا اُن کی لکڑی بھی خاص اہمیت و افادیت کی نہیں ہوتی اور تیسرا سفیدے اور اِس نسل کے دیگر درختوں سے سانس کی بیماریاں (پولن الرجی) عام ہوئی ہیں۔ پاکستان میں ہر سال 2 مرتبہ شجر کاری مہم چلائی جاتی ہے یہ بات بھی زیرغور رہنی چاہئے کہ ہر سال اُنہی علاقوں میں کروڑوں درخت لگائے جاتے ہیں جہاں اِس سے پہلے لگائے گئے ہوتے ہیں۔ یہ نکتہ اپنی جگہ توجہ طلب ہے کہ کسی بھی مہم یا بنا مہم محض پودے لگانا ہی کافی نہیں بلکہ اِن کی ایک خاص عمر (مضبوطی) تک پہنچنے تک درختوں کو نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے‘ جو نہیں مل پا رہی اور یہی وجہ ہے کہ موسم بہار یا موسم برسات میں لگائے گئے درخت اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پاتے اور جلد سوکھ جاتے ہیں۔ حکومت اگر اپنی شجرکاری مہمات کو محض درخت لگانے تک محدود نہ رکھے اور لگائے گئے پودوں کی نگہداشت کو بھی ان مہمات کا حصہ بنایا جائے تو ملک میں جنگلات کی کمی کو خاصی حد تک پورا کیا جا سکتا ہے۔ درخت انسانی بقا کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ موسم‘ پودے‘ درخت‘ پرند چرند اگر ہوں گے تو انسان کا وجود اور کرہئ ارض پر قیام بھی آرام دہ ہوگا اور اگر خدانخواستہ کرہئ ارض کا حیاتیاتی تنوع بگڑ گیا‘ تو پھر کچھ بھی باقی نہیں رہے گا‘ اِس لئے درختوں کا تعلق آج کی دانش اور مستقبل کی ضرورت سے تعلق ہے‘ جسے فراموش کرنا اپنے آپ کو نابود کرنے کے مترادف ہے۔