لگتاہے کہ ہم نے قسم کھارکھی ہے کہ نہ تو حالات سے کچھ سیکھناہے نہ تاریخ سے کوئی سبق حاصل کرناہے یہی وجہ ہے کہ آج جبکہ قلت آب کے خطرات نے ہمیں چاروں طرف سے گھیرے میں لینا شروع کیاہواہے حکمرانوں اورسیاسی رہنماؤں کی طرف سے معاملہ پر سیاست بازی عروج پرہے،سندھ حکومت وفاق اور پنجاب کو موردالزام ٹھہراتے ہوئی کہتی ہے کہ اس کے حصہ کاپانی روک کر علاقہ کو صحرا میں تبدیل کیا جا رہا ہے جس کے بعد اب بلوچستان نے سندھ پر اپنے حصہ کے پانی کی چوری کاالزام عائد کردیا ہے خیبرپختونخوا تو ایک عرصہ سے چیخ رہاہے کہ اس کے حصہ کا پانی دوسرے استعمال کررہے ہیں الزام تراشیوں کا یہ سلسلہ عشروں سے جاری ہے مگر آج تک کسی نے الزام کو سنجیدہ لیا نہ کسی نے الزام ثابت کرنیکی کوشش کی سب سے تشویشناک امرتویہ ہے کہ کسی نے بھی اس معاملہ میں مصالحتی کردارادا کر نے کی ضرورت محسوس ہی نہیں کی یوں ایک طرف ہمیں پانی کی شدید کمی کا سامنا ہے تودوسری طرف مسئلہ کے حل کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش دکھائی ہی نہیں دی اس وقت بھی خبروں کے مطابق ملک میں پانی کی قلت بڑھتی جارہی ہے،کم بارشوں اور بھارت کی طرف سے پانی روکے جانے کی وجہ سے دریا خشک ہوگئے ہیں،آبی ماہرین کی جانب سے خبردار کیا گیا ہے کہ اگر پانی کے نئے ذخائر نہ بنائے گئے اور پانی کا ضیاع نہ روکا گیا تو قحط سالی کا شکار ہوجائیں گے،اس وقت پانی کی فی کس دستیابی 11 سو کیوبک میٹر سالانہ ہے جیسے ہی یہ ایک ہزار کیوبک میٹر سے نیچے آئی تو قحط کا شکار ہوجائیں گے ماہرین کی طرف سے باربارتنبیہ کی جاتی رہتی ہے مگر پالیسی سازکم ہی اس پرتوجہ دیتے ہیں بد قسمتی سے ملک میں ڈیموں کی ضرورت کبھی محسوس نہیں کی گئی موجودہ ڈیم بھی سابق صدر ایوب خان کے دور کے ہیں اس دور کو آمرانہ دور کہا جاتا تھا اس آمرانہ دور کے بعد کسی جمہوری ملک نے ڈیموں کی تعمیر اور پانی کے ذخیرہ کی کوشش نہیں کی کالاباغ ڈیم کو متنازعہ بنایا گیا دیگر ڈیموں کی تعمیر کو بھی ناممکن بنایا گیا کبھی روپے پیسے کی کمی اور تنگی سامنے آئی کبھی ڈیموں کی تعمیر کی جگہوں کو متنازعہ بنایا گیا اور کبھی تو بعض جگہوں پر لوگوں کی مخالفت سامنے آئی۔ مختصر یہ کہ کسی حکومت نے پانی کی ضرورت کا احساس نہیں کیا حکومتوں کی بے حسی اور نا اہلی کے باعث ہمارا پانی کراچی کے سمندر میں جاگرتاہے اگر اسے محفوظ بنایا جاتا توآج ہمیں بجلی کے لوڈشیڈنگ سے بھی نجات ملی ہوتی اور آبپاشی کے لئے بھی پانی باہم میسر ہوتا۔ بھارت کے ساتھ پاکستان کا سندھ طاس معاہدہ ہے یہ معاہدہ 60 کی دہائی میں طے پایا گیا تھا افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بھارت اس معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی کررہا ہے اور بھارت سے بہنے والے جن تین دریاؤں پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا ہے بھارت نے ان دریاؤں پر بند باندھ کر ڈیمز بنائے ہیں اور مزید ڈیموں کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے آج بھی ماضی کے برعکس ہمیں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے اگر اس حوالہ سے بروقت اقدامات نہ کئے گئے تو آنے والے سالوں میں ہم بجلی، گیس،آٹے،چینی بحرانوں کے ساتھ ساتھ پانی کی شدید بحران سے بھی دوچار ہوں گے۔ پانی کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کیا جاسکتا، پانی سے ہماری غذائی اجناس پیدا ہوتی ہیں، بجلی پیدا ہوتی ہے، پانی کے بڑے ذخائر کی تعمیر پر توجہ دے کر ہی ہم مستقبل میں پانی کے ممکنہ خوفناک بحران سے خود بچا سکتے ہیں توانائی کے بحران کی بھی بڑی وجہ پانی سے استفادہ نہ کرنا ہے ہمارے منصوبہ سازوں کی نااہلی اور متعلقہ اداروں کے بے حسی کے باعث آج بھی ہمارے پانی کا ضیاع جاری ہے اور جو پانی زراعت اور توانائی کے لئے ضروری ہے وہ سمندر میں گرتا چلاجارہا ہے بدقسمتی سے ہمارے صوبے پانی کی تقسیم پربھی آج تک متفق نہیں ہوپائے ہیں اور اس حوالہ سے پانی چوری کے الزامات ایک دوسرے پر لگائے جاتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ملکر پانی کو محفوظ کرنے اور بھارت سے سندھ طاس معاہدے کی پاسداری کا شدت کے ساتھ مطالبہ کریں۔ پانی کے بغیر زندگی گزارنا محال ہے خدارا پانی پر سیاست نہ کی جائے اور پانی کو محفوظ کرکے ڈیموں کی تعمیر پر توجہ مرکوز کی جائے۔ بارشوں نے گزشتہ ایک دہائی سے ملک بھر اور صوبہ خیبر پختونخوا میں بڑی تباہی مچائی ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق ان برسوں میں 43 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے جہاں تک خیبر پختونخوا کا تعلق ہے تو یہاں ہر سال مون سون کی بارشوں نے تباہی مچائی ہے۔ اگر ہمارے پاس بارشوں کے پانی کے محفوظ کرنے کیلئے ڈیمز ہوتے تو ہم جانی اور مالی نقصانات سے محفوظ ہوسکتے تھے۔ اگر صورت حال اسی طرح برقرار رہی تو ہمیں شدید قحط سالی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور اس سے ہمارے جانی اور مالی نقصانات کا تخمینہ لگانا ناممکن ہوجائیگا اب بھی وقت ہے پانی کے مسئلہ پر سیاست کرنے کے بجائے پانی ذخیرہ کرنے کے لئے طویل وقلیل المیعاد دونوں قسم کے منصوبے بنائے جائیں میڈیا،سول سوسائٹی اورعلمائے کرام بھی اپنا کردار اداکرتے ہوئے پانی کاضیاع روکنے کے لئے شعوربیداری مہم چلائیں اس مسئلہ پر جتنا بھی لکھا جائے اورجتنا بھی بولاجائے کم ہے اس حوالہ سے ہر مکتبہ فکر کو اس محاذ پر اپنا اپناکردار ادا کرناچاہئے تاکہ پانی کے مسئلہ کو مزیدسنگین ہونے سے بچایا جاسکے۔