معاشرے کے دو محروم طبقے

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت معاشرے کے متوسط، غریب اور کمزورطبقات کو ریلیف فراہم کرنا اپنا نصب العین قرار دیتی ہے۔ کورونا وباء کے دوران لاک ڈاؤن کی وجہ سے جن محنت کشوں کی دیہاڑی متاثر ہوئی۔ ان میں بارہ ہزار روپے فی خاندان کے حساب سے 144ارب روپے تقسیم کئے گئے۔ حکومت نے فنون سے وابستہ معاشی طور پر کمزور لوگوں کے لئے بھی وظائف مقرر کئے ہیں اب آئمہ مساجد کو بھی ماہانہ دس ہزار روپے فی کس وظیفہ دینے کی منظوری دی گئی ہے۔ان سطور میں حکومت کی توجہ معاشرے کے دو انتہائی کمزور اور غریب طبقات کی حالت زار کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کروں گا۔ تاکہ اوروں کی طرف گل اور ثمر پھینکنے والے خامہ برانداز چمن ان مفلوک الحال لوگوں کو بھی ریلیف پہنچانے کے لئے ان کی حالت پر بھی نظر کرم ڈالیں۔ معاشرے کاایک مجبور طبقہ ای او بی آئی پنشنرز کاہے۔ مختلف پرائیویٹ اداروں میں پندرہ سے چالیس سال تک کام کرنے کے بعد جب ان کے قویٰ مضمحل ہوجاتے ہیں تو انہیں ملازمت سے فارغ کیاجاتا ہے۔نجی اداروں میں ملازمت کے دوران ان کی تنخواہ سے ماہانہ ای او بی آئی فنڈ کی مد میں کٹوتی ہوتی ہے۔ان کی تنخواہ سے جتنی کٹوتی ہوتی ہے ادارہ دوگنی رقم ملاکر ان کے ای او بی آئی کھاتے میں جمع کرتے ہیں ساٹھ سال کی عمر کو پہنچنے پر وہ پنشن کی ادائیگی کے لئے کلیم جمع کرتے ہیں۔دوسال قبل تک انہیں پانچ ہزار دو سو روپے ماہانہ پنشن دی جاتی تھی۔ موجودہ حکومت نے پہلے سال یہ رقم ساڑھے چھ ہزار اور دوسرے سال ساڑھے آٹھ ہزار کردی اور یہ اعلان بھی کیا کہ اگلے دو سالوں میں ای او بی آئی پنشن پندرہ ہزار کردی جائے گی۔تاہم حالیہ وفاقی بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں دس فیصد اضافہ کیاگیا مگر ای او بی آئی پنشنرز کا نام تک نہیں لیاگیا۔ پرائیویٹ اداروں میں جو لوگ چودہ یا ساڑھے چودہ سال تک ای او بی آئی فنڈ میں پیسے جمع کراتے رہے اور وہ ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ گئے۔انہیں چار چھ ماہ کے فرق کی وجہ سے پنشن سے محروم رکھا گیا ہے۔ اگر ان لوگوں کی چند ماہ کی رقم حکومت یا متعلقہ ادارے جمع کرائیں تو وہ بھی پنشن کے حقدار ہوسکتے ہیں اور انہیں بڑھاپے کا کچھ نہ کچھ سہارا مل سکتا ہے۔ دوسرا کمزور اور پسماندہ طبقہ جو حکومت کی نظر عنایت سے محروم ہے وہ پرائیویٹ سکیورٹی کمپنیوں کے سکیورٹی گارڈز ہیں۔جن اداروں میں پرائیویٹ کمپنیوں کے سکیورٹی گارڈ تعینات ہیں ان سے روزانہ بارہ گھنٹے ڈیوٹی لی جارہی ہے اور انہیں بارہ سے پندرہ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے حالانکہ ادارے گارڈز کی تنخواہوں کی مد میں سکیورٹی کمپنیوں کو تیس سے چالیس ہزار روپے فی کس ماہانہ ادا کرتے ہیں۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن اور قومی وزارت محنت و افرادی قوت نے ملازمین کے اوقات کار چھ سے آٹھ گھنٹے مقرر کررکھے ہیں اگر مقررہ وقت سے آدھا گھنٹہ زیادہ ڈیوٹی لی جائے تو اسے اوور ٹائم کا حقدار قرار دیا جاتا ہے۔ سکیورٹی گارڈز کو بندوق تھامے بارہ گھنٹے چوکس رہنا پڑتا ہے۔ وہ وردیاں بھی خود خریدتے ہیں۔ ان کی دھلائی اور استری کا خرچہ بھی خود اٹھاتے ہیں۔ چائے پانی اور کھانے کا خرچہ بھی اپنی جیب سے کرتے ہیں جو لوگ اپنے گھروں سے دور ہیں انہیں رہائشی کمرے اور آنے جانے کا اضافی کرایہ بھی دینا پڑتا ہے بجلی اور گیس کے بل بھی ادا کرنے پڑتے ہیں۔ گھر کا چولہا بھی گرم رکھنا ہوتا ہے۔ بچوں کی تعلیم، علاج معالجے اور کپڑوں، جوتوں کا خرچہ بھی پورا کرنا پڑتا ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں بارہ پندرہ ہزار روپے کی تنخواہ پر جسم و جان کا ربط برقرار رکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔حکومت نے مزدور کی کم سے کم تنخواہ بیس ہزار روپے ماہانہ اور ڈیوٹی آٹھ گھنٹے مقرر کی ہے۔مگر ملک بھر کے نجی اور سرکاری اداروں میں سکیورٹی گارڈ کے طور پر کام کرنے والے لاکھوں مزدور اس ریلیف سے محروم ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت، وفاقی و صوبائی وزارت محنت و افرادی قوت اور وزارت انسانی حقوق کو ای او بی آئی پنشنرز اور پرائیویٹ کمپنیوں کے سکیورٹی گارڈ کی حالت زار پر بھی توجہ دینی چاہئے۔تاکہ معاشرے کے یہ کمزور اورغریب لوگ بھی عزت کی زندگی گزار سکیں اور انہیں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور نہ ہونا پڑے۔