کرہ ارض کے ”ماحولیاتی تنوع کی بحالی (ایکوسسٹم ریسٹوریشن)‘‘کے لئے عالمی کوششوں کے 10 سال مکمل ہو گئے ہیں اور اِس سلسلے میں اقوام متحدہ کی مرتب کردہ حکمت عملی میں صرف ماحولیات کے عالمی دن ہی بلکہ دیگر خصوصی ایام کو بھی کسی نہ کسی زاویئے سے ماحول کے تحفظ کی جانب موڑ دیا گیا ہے کیونکہ بقائے ماحول کا تعلق بقائے اِنسان سے ہے اور جس انداز میں کرہ ارض کے درجہئ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے تو اگر یہ سلسلہ اِس مقام پر بھی نہ روکا گیا اور ماحول کو ڈھالنے کی بجائے اِس کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا طرزعمل اختیار نہ کیا گیا تو اندیشہ ہے کہ زراعت کو پہنچنے والے نقصانات کے سبب عالمی سطح پر شدید غذائی قلت (خشک سالی و قحط سالی) سے پاکستان سمیت وہ ممالک بھی متاثر ہوں گے جو فی الوقت ماحولیاتی تنوع میں بگاڑ سے نسبتاً محفوظ ہیں لیکن دریاؤں میں پانی اور بارشوں کی کمی بہرحال ایک ایسا گھمبیر مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کے لئے حکومتی کوششوں کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے کیونکہ عام آدمی اِن کوششوں میں شریک نہیں اور نہ ہی ماحولیاتی علوم و تفکرات درسی نصاب و تدریسی نظام کا اُس طرح حصہ بن سکا ہے‘ جیسی کہ ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے سال 2021ء کو ”ماحولیاتی تنوع کی بحالی‘‘کا سال قرار دیا گیا ہے جو اِس سلسلے میں ایک دہائی سے جاری کوششوں کا مظہر ہے لیکن ماحولیاتی تحفظ کے لئے اُن ممالک کے نکتہئ ہائے نظر کو بھی اہمیت ملنی چاہئے‘ جو عالمی سطح پر تحفظ ماحول کی کوششوں میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں جیسا کہ پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ اور ترقی یافتہ ممالک کی توجہ اِس ضرورت کی جانب مبذول کروائی گئی ہے کہ ”گرین فنڈ“ کا قیام عمل میں لا کر عالمی سطح پر ”تحفظ ماحول‘‘کی کوششوں میں ترقی پذیر دنیا کی مدد کی جائے۔موسمیاتی تبدیلیاں انسانی بقا ء کو لاحق سب سے بڑا خطرہ ہیں لیکن اِس خطرے کے لئے ذمہ دار قدرت نہیں بلکہ خود انسان ہیں جنہوں نے صنعتی ترقی اور ”ضرورت سے زیادہ“ آرام و آسائش (سہولیات) کے لئے ماحول کے کیمیائی توازن میں بگاڑ پیدا کر دیا ہے۔ صنعتوں سے اُگلنے والا دھواں اگر فضائی آلودگی کا باعث ہے تو بنا تطہیر مختلف کیمیائی مادوں سے بھرپور آلودہ پانی،ندی نالوں‘ نہری نظام اور زیرزمین پانی کے ذخیرے کے لئے ایسا خطرہ ہے‘ جسے معمولی سمجھ کر نظرانداز کیا جا رہا ہے اور اگرچہ ہمارے ہاں تحفظ ماحول کے حکومتی ادارے (انوئرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی) اور وفاقی و صوبوں کی سطح پر وزرا ء بھی موجود ہیں لیکن سب کی کارکردگی ایک جیسی ہے کہ ماحول کو لاحق خطرات اپنی جگہ (بدستور) موجود ہیں‘ جن کی شدت میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے اور ماحولیاتی تنوع میں بگاڑ کے اثرات بھی ڈھکے چھپے نہیں،کرہئ ارض کے درجہئ حرارت میں اضافے سے بارشوں کے معمولات متاثر ہوتے ہیں جیسا کہ برسات (مون سون) کا دورانیہ کم ہو رہا ہے اور اِس کا آغاز تاخیر سے ہونے کے سبب بارانی علاقوں میں فصلیں متاثر ہوتی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ قدرت کی جانب سے کسی علاقے میں بارشوں کا ایک خاص تناسب مقرر ہے اور یہ تناسب اگر بارشوں کے تسلسل اور دورانیئے میں پورا نہ ہواور بیک وقت زیادہ مقدار میں بارشیں ہوں تو اِس سے زرخیز مٹی کا بہاؤ اور کٹاؤ دونوں ہوتے ہیں‘ جو زراعت کے لئے سنگین خطرہ ہیں۔ پاکستان کا شمار دنیا کے اُن 10 ممالک میں ہوتا ہے جو ماحولیات تنوع میں بگاڑ کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ اِس مناسبت سے جاری کردہ فہرست کے مطابق پاکستان چھٹے نمبر پر سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے۔توجہ طلب ہے کہ سال 1999ء سے 2018ء کے درمیانی عرصے کے دوران پاکستان میں 9 ہزار 989 ہلاکتیں صرف موسمی اثرات کے سبب ہوئیں جبکہ 3.8 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا لیکن اِس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ ماحول کے تنوع میں بگاڑ (عدم توازن) کے سبب ہلاکتیں اُور معاشی نقصانات کا سلسلہ جاری ہے۔ کیا ہمارے فیصلہ ساز نہیں جانتے کہ پاکستان میں پانی کی شدید قلت ہے اور یہ قلت آنے والے برسوں میں مزید بڑھ جائے گی جبکہ آبادی کی ضروریات پورا کرنے کے لئے بھی درکار پانی دستیاب نہیں ہوگا۔ ہر مشکل کا حل غیرملکی امداد نہیں ہوتی اور نہ ہی غیرملکی امدادی ادارے ایسی صورت میں کسی ملک کی مدد کرتے ہیں جبکہ وہاں کی حکومت اُور عوام خود تبدیلی کے عمل کا حصہ نہ بنیں۔ تبدیلی کا آغاز سب سے پہلے روئیوں میں تبدیلی سے ہوتا ہے۔ پاکستان کی ضرورت ماحول دوستی و بچاؤ کے لئے ایک ایسی کثیرالجہتی حکمت عملی کی ہے جو فوری (شارٹ ٹرم)‘ وسط مدتی (میڈیم ٹرم) اور طویل المدتی (لانگ ٹرم) اہداف کو تعین اُور اِن کے حصول میں عملاً سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ اگر ضرورت جنگلات کے رقبے میں اضافے کی ہے اور اِس مقصد کے لئے ہر سال 2 مرتبہ شجرکاری مہمات بھی چلائی جاتی ہیں لیکن اگر جنگلات سے بطور ایندھن استفادہ کرنے جیسی ضرورت کا متبادل فراہم نہیں کیا جاتا تو شجرکاری مہمات ناکافی رہیں گی۔ مثال کے طور پر شمالی علاقہ جات (گلگت بلتستان) اور خیبرپختونخوا کے ہزارہ و مالاکنڈ ڈویژنز میں سینکڑوں دیہی علاقے گیس سے محروم ہیں اور اُن کا گزر اوقات آج بھی جنگلات کی کٹائی ہی پر ہو رہا ہے۔ وفاقی حکومت کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 64 فیصد ایندھن (جلانے کے لئے درکار وسیلہ) روایتی ہے اور اگر یہ ہدف طے کیا جائے کہ سال 2030ء تک 60فیصد ایندھن کا انحصار لکڑی پر نہیں ہوگا تو اِس سے خاطرخواہ بہتر نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ جنگلات کی حفاظت سیاحتی نکتہئ نظر سے بھی ضروری ہے کہ گلگت بلتستان اور بالائی خیبرپختونخوا کے علاقوں کی واحد کشش وہاں کے موسم ہیں‘ جو درختوں کے مرہون منت ہیں اور انہی صحت افزاء مقامات کی سیر و تفریح ہر سال بیس لاکھ سے زیادہ سیاح اِن علاقوں رخ کرتے ہیں اُور سیاحت اِن علاقوں کی معیشت و معاشرت میں ریڑھ کی ہڈی جیسا کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ تحفظ ماحول کی کوششوں میں صرف سیاحت نہیں بلکہ ایک ایسی ’پائیدار سیاحت‘ کا فروغ ضروری ہے جس میں ماحول کو نقصان پہنچائے بغیر قدرتی ماحول سے لطف اُٹھایا جائے لیکن افسوس کسی بھی سیاحتی علاقے میں سب سے خستہ حال نظام وہاں گندگی تلف کرنے اُور نکاسیئ آب کا ہوتا ہے‘ جو قدرتی تنوع ہی کے لئے نہیں بلکہ جنگلی حیات کے لئے بھی خطرہ ہے۔ سمجھنا ہوگا کہ ’ماحول دوستی‘ اُور زیادہ سے زیادہ ’ماحول شناسی‘ کے بغیر بقا و ترقی ممکن نہیں رہی۔ ”ماحول کی حفاظتیں لازم ہیں دوستو …… تتلی کی موت‘ اصل میں پھولوں کی موت ہے (شعیب زمان)۔“