پاک اَفغان تجارت: درمیانی راستہ۔۔۔۔۔

افغانستان اور پاکستان کے درمیان تجارتی معاہدہ 2010ء (المعروف افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ APTTA) میں ’6 مہینے‘ کی توسیع کی گئی ہے جبکہ نئے عبوری معاہدے کئی شقوں پر دونوں ممالک کے درمیان اِتفاق نہیں ہو سکا اور فیصلہ یہ کیا گیا کہ جب تک اتفاق نہیں ہو جاتا اُس وقت تک (چھ ماہ دورانئے) کے لئے پرانے معاہدے ہی کی شرائط کے مطابق تجارت جاری رکھی جائے۔ کورونا وبا کے سبب دونوں ممالک کے درمیان معاہدے پر بات چیت ’ویڈیو لنک‘ کے ذریعے ہوئی جس میں مجوزہ عبوری معاہدے پر بات چیت کا سلسلہ جاری رکھنے پر اتفاق ہوا ہے اور آئندہ ماہ اجلاس میں معاہدے کو حتمی شکل دی جائے گی۔ ذہن نشین رہے کہ مذکورہ تجارتی معاہدہ کی معیاد 11 فروری 2021ء کے روز اختتام پذیر ہوئی تھی جس کے بعد اِسے 3ماہ کے لئے توسیع دی گئی تھی اور اب 6 ماہ کی مزید توسیع دی گئی ہے۔ افغانستان سے تجارت اِس قدر اہم و حساس معاملہ ہے کہ اِسے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی اُٹھایا گیا اور اِس پر پاکستان کے نکتہئ نظر سے غوروخوض ہونے کے بعد جو (نیا) عبوری معاہدہ بنایا گیا‘ اُسے (حسب توقع) من و عن افغانستان نے ماننے سے انکار کر دیا ہے۔پاکستان کی نظریں افغانستان سے زیادہ وسط ایشیائی ریاستوں پر ہیں‘ جن سے تجارت بحال ہونے پر پاکستان کو مرکزی حیثیت حاصل ہو جائے گی بالخصوص چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے اور چین کے ’بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو‘ کا وسیع تناظر بھی وسط ایشیائی ریاستوں سے تجارت کا فروغ ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان افغانستان کی ناراضگی مول لئے بغیر ایک ایسا تجارتی معاہدہ چاہتا ہے‘ جس میں براستہ افغانستان (تجارتی راہداری) کے وسیع امکانات کو ترقی دی جا سکے۔ اِس سلسلے میں پاکستان کے تین اہداف ہیں۔ پہلا تجارت (ٹریڈ)‘ دوسرا راہداری (ٹرانزٹ) اور تیسرا سازوسامان کی نقل و حمل (ٹرانس شپمنٹ) جس کیلئے مستقل اور قابل بھروسہ قانونی نقل و حمل بشمول تجارت جیسے اہداف متعین کئے گئے ہیں۔ یہ ایک وسیع اور کثیرالجہتی تجارتی نظریہ اور تجارت کا معاہدہ ہے جس میں افغانستان اور ازبکستان مرکزی فریق ہیں اور پاکستان چاہتا ہے کہ اِس تجارتی راہداری سے متعلق کوئی بھی فیصلہ (معاہدہ) اختلافی نہ ہو اور ہر ملک کے تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے درمیانی راستہ نکالا جائے اور ایسا عنقریب ہونا ممکن ہے جب نظرثانی شدہ معاہدے کے مسودے پر اتفاق رائے سامنے آئے گا اور اُن سبھی نکات و تحفظات کو دورکیا جائے گا جو افغانستان کی جانب سے اُٹھائے گئے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ افغانستان کا کوئی بھی حصہ سمندر کے ساتھ نہیں جڑا‘ جس کی وجہ سے اُس کی تجارت ہمسایہ ممالک کی بندرگاہوں سے ہوتی ہے۔ حالیہ چند برس میں پاکستان کے راستے افغان تجارت کے حجم میں کمی آئی ہے جو فی الوقت مجموعی طور پر 30 فیصد ہے جبکہ باقی ماندہ ضروریات ایران‘ ازبکستان اور تاجکستان کے راستوں سے درآمد کے ذریعے پوری کی جاتی ہیں۔ پاکستان افغانستان کے ساتھ تجارت کے حجم میں اِضافے سے زیادہ اِس بات میں دلچسپی رکھتا ہے کہ وہ افغان راہداری کا استعمال کرتے ہوئے اپنی برآمدات وسط ایشیائی ریاستوں تک پہنچائے اور یہی ہدف ’بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو‘ کا بھی ہے جس کیلئے افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی کم ترین فاصلہ اور ترجیح ہے۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کے چند پہلو قابل ذکر ہیں۔ 1: پاکستان سب سے زیادہ تجارت افغانستان سے کرتا ہے۔2: افغانستان کی جانب سے پاکستان تجارتی ترجیح نہیں بلکہ یہ دوسرا بڑا ملک ہے۔ 3: افغانستان میں امن و امان کی داخلی اور سیاسی صورتحال کا اثر پاک افغان تعلقات پر پڑتا رہا ہے اور حالیہ چند برس میں غیرملکی افواج کے سازوسامان کی براستہ پاکستان راہداری ختم کرنے سے پاکستان کے ساتھ افغان تجارت بھی متاثر ہوئی۔ 4: پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2010ء میں ایک معاہدہ ہوا‘ جس میں دونوں ممالک نے دوطرفہ تجارت کے فروغ کے عزم سے ایک دوسرے کے تاجروں کو سہولیات دینے کا فیصلہ کیا۔ 5: اگر پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کا حجم بڑھتا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کسی نئے معاہدے کی صورت ترتیب پاتے ہیں تو اِس سے پاکستان کو وسط ایشیائی ریاستوں کی منڈیوں تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔ 6: پاکستان افغانستان میں ہر طرح کا امن چاہتا ہے اور بالخصوص پرامن اقتصادی تعاون کیلئے تجارت و راہداری میں فروغ کا خواہشمند ہے تاکہ جنوب ایشیائی ممالک اور وسط ایشیا کی ریاستوں کی صورت درآمدی و برآمدی امکانات سے فائدہ اُٹھا سکے۔ 7: پاکستان کی جانب سے افغانستان میں قیام امن کی حالیہ کوششوں کے نتیجے میں عسکریت پسند دھڑے طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدہ ممکن ہوا اور اب غیرملکی افواج کا امریکہ سے انخلأ ہو رہا ہے‘ جس کے بعد اُمید ہے کہ افغانستان کے ساتھ نہ صرف سیاسی و برادرانہ تعلقات میں اضافہ ہوگا بلکہ وہ تجارتی تعلقات بھی بحال ہوں گے جو کبھی مثالی ہوا کرتے تھے۔ پاکستانی تاجروں کو افغانستان برآمدات کی صورت مالی ادائیگیوں کی ضمانت چاہئے جو وہاں بنا امن اور عوام کی ترجمان سیاسی حکومت کے بغیر ممکن نہیں۔