وزارت داخلہ نے پاکستان میں مقیم تمام غیرملکیوں کو رجسٹر کرنے کا فیصلہ کیا ہے غیر ملکیوں کو ایلین کارڈ کے ذریعے بینک اکاونٹس کھولنے کی اجازت ہوگی۔ وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ ایلین کارڈ کے ذریعے غیر ملکی شہری کاروبار شروع کرسکیں گے سم کے حصول اور بیرون ملک سفر کی اجازت ہوگی۔ اگر ان کا ویزا ختم ہوجائے تو اس کی بھی تجدید کی جائے گی۔ جعلی افغان کارڈ بنانے والوں کو پکڑا گیا ہے ہزاروں غیر ملکیوں کو پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جاری کرنے کے معاملے کی تحقیقات کررہے ہیں۔وزیرداخلہ نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ موجودہ صورتحال کے پیش نظر پاکستان میں موجود ہر غیر ملکی رجسٹرڈ ہو۔ کوئی منہ اٹھا کر ایسے ہی پاکستان میں داخل نہیں ہوسکے گا۔ پچپن ہزار لوگ ستر سالوں میں پاکستان آئے ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔ایک طرف حکومت رجسٹرڈ اور نان رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کی بات کر رہی تھی دوسری جانب ان کی رجسٹریشن کرکے کاروبار کرنے کی اجازت دی جارہی ہے۔سرحد کے اس پار صورتحال دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔ امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد متحارب افغان دھڑے ایک بار پھر حصول اقتدار کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔طالبان نے ایک سو سے زائد اضلاع پر قبضہ کرلیا ہے۔اور وہ پاکستان کی مغربی سرحد کے ساتھ پشتون قبیلوں پر مشتمل علاقوں پر اپنی گرفت مضبوط کرنے میں لگے ہوئے ہیں غیر ملکی افواج کی واپسی کے بعد افغانستان کے مختلف حصوں میں لڑائیاں شروع ہونے کا خدشہ ہے ایسی صورت میں لوگ جانیں بچانے کیلئے نقل مکانی کریں گے۔ اور زیادہ تر لوگ پاکستان ہجرت کرنے کو ترجیح دیں گے۔ اگر ہزاروں لاکھوں لوگ پاکستان کی سرحد پر پہنچ گئے تو انہیں ملک میں داخل ہونے سے روکنا ممکن نہیں رہے گا۔ طالبان اور امریکہ کے درمیان دوحہ امن مذاکرات کے بعد بین الافغان مذاکرات کا مرحلہ ابھی تک شروع نہیں ہوسکا۔ طالبان کے وفد نے گذشتہ روز ایرانی حکام سے بھی امن مذاکرات کے حوالے سے مشاورت کی ہے اور پاکستان کے ساتھ بھی مختلف افغان گروپ رابطے میں ہیں۔ مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ آپس میں مل بیٹھ کر اپنے گھر کا تنازعہ حل کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔سوویت یونین کے نکل جانے کے بعد یہاں پر آپس میں برسرپیکار عسکری گروہوں کے درمیان خانہ جنگی شروع ہوگئی اور امریکہ افغانستان کو اس کے حال پر چھوڑ کر چلا گیا۔اسی خانہ جنگی کے دوران طالبان وجود میں آئے اور انہوں نے چند سالوں کے اندر پورے افغانستان پر قبضہ کرکے اپنی حکومت قائم کی۔ 2001میں امریکہ نے طالبان حکومت کا خاتمہ کرکے وہاں جو حکومت قائم کی وہ پورے افغانستان پر نہ پھیل سکی۔ اس وقت جو صورت حال ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اگر بین الافغان امن مذاکرات فوری طور پر منعقد نہ ہوسکے تو خانہ جنگی کی شدت میں مزید اضافے کا اندیشہ ہے اس صورت میں پاکستان کو مہاجرین کے مسئلے سے بادل نخواستہ دوچار ہونا ہی پڑے گا۔ جس کیلئے پیشگی منصوبہ بندی ناگزیر ہے اور اس حوالے سے کچھ اقدامات کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے جس میں افغان مہاجرین کی آمد کی صورت میں ان کو سرحدات پر ہی کیمپوں میں تمام سہولیات فراہم کی جائیں گی اور ماضی کے برعکس وہ بلا روک ٹوک پورے ملک میں نہیں پھیل سکیں گے۔ امریکی افواج کا تیزی سے انخلاء جاری ہے اور چین سمیت کئی ممالک نے اسے عجلت میں غیر ذمہ دارانہ انخلاء قرار دیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ انخلاء سے قبل یہاں پر بین الافغان مذاکرات کا مرحلہ مکمل ہوجاتا اور کوئی متبادل نظام موجود ہوتا تاکہ ماضی کی طرح ایک بار پھر انتظامی اور سیاسی خلاء پیدا نہ ہو اور ملک ایک بار پھر نہ ختم ہونے والی خانہ جنگ کا شکار نہ ہوجائے۔ جس کے اثرات تمام پڑوسی ممالک پر مرتب ہوں گے خاص کر پاکستان میں امن امان کے مسائل سر اٹھا سکتے ہیں جس کے اثرات معاشی سرگرمیوں پر براہ راست مرتب ہوتے ہیں۔ ایسے حالات میں کہ جب کورونا سے متاثرہ معیشت کو سرتوڑ کوششوں اور منصوبہ بندی سے بحال کیا گیا ہے افغان مسئلے کے مد نظر فوری اور موثر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔