سوچ میں تبدیلی کا مثبت رجحان

ہمارے سیاسی قائدین کی تقریروں،ٹی وی ٹاک شوزمیں ان کی گفتگو اور بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں بہت کچھ بدلنے کے باوجود سیاسی رویے نہیں بدلے۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام کافی باشعور ہوچکے ہیں۔خاص طور پر نوجوان تعلیم یافتہ نسل ملک کے سیاسی ماحول سے دلبرداشتہ دکھائی دیتا ہے۔ کراچی سے اخبار کے ایک قاری رحمت ولی نے خط لکھا ہے کہ جو سیاست دان اپنے بچوں کو سرکاری سکول میں داخل نہیں کراتے، سرکاری ہسپتالوں سے علاج نہیں کرواتے اور جو چھٹیاں منانے گلیات، کاغان، ناران، ہنزہ، کالام، کمراٹ اور چترال جانے کے بجائے فرانس، برطانیہ، ہالینڈ، بنکاک، دوبئی اور سوئزر لینڈ جاتے ہیں ان پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی لگانی چاہئے۔ کیونکہ یہ لوگ عوام کے مسائل سے واقف نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ عوامی مسائل کم ہونے کے بجائے حکومتوں کی تبدیلی کے ساتھ بڑھتے جارہے ہیں۔ ہم نے امانت سمجھ کر اپنے معزز قاری کی بات کالم کی صورت میں من و عن عوام تک پہنچائی ہے مگر بات وہی بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کی آجاتی ہے۔ یہ قانون تو پارلیمنٹ سے منظور ہونے کا ہے جبکہ ہمارے ملک میں انتخابی اخراجات اتنے زیادہ ہیں کہ کسی متوسط اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والا خواہ قومی خدمت کے جذبے سے کتنا ہی سرشار کیوں نہ ہو۔انتخابات میں حصہ لینے کی استطاعت ہی نہیں رکھتا۔اگر ضد میں آکر انتخابات لڑے گا بھی، تو اپنی ضمانت ضبط کرائے گا۔ کیونکہ ووٹ صرف اہلیت اور خدمت کے جذبے کی بنیاد پر نہیں ملتے۔ بلکہ اس کے دیگر بہت سے عوامل ہیں ساتھ ووٹرز اور سپورٹرز کی مالی ضروریات کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ان تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے کوئی شیر دل نوعیت کا بندہ اسمبلی میں پہنچ بھی جائے تو وہاں اس کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوتی ہے۔ایبٹ آباد سے قاری محبوب، سوات سے گل رحمان اور مستوج سے مستنصر حسین کے خطوط میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ ہمارے منتخب اراکین قومی و صوبائی اسمبلی، سینیٹرز، ناظمین اور سیاسی جماعتوں کے صوبائی، ڈویژنل اور ضلعی عہدیداروں کو پابند بنایاجائے کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں داخل کرائیں تاکہ تعلیم کا معیار بہتر بنایاجاسکے۔ ان کا کہنا ہے کہ شرح خواندگی اور معیار تعلیم میں اضافے کے حوالے سے حکمرانوں اور محکمہ تعلیم کے دعوے اور اعدادوشمار کے برعکس آج بھی ایک تہائی بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ پانچویں جماعت کے بعد سکول چھوڑنے کی شرح کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہے۔ ساٹھ فیصد بچے میٹرک کے بعد تعلیم کو خیر باد کہہ دیتے ہیں کیونکہ وہ سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں کی بھاری بھر کم فیسیں بھرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ آج بھی بیشتر سرکاری سکول بجلی، پانی، چاردیواری، کھیل کے میدان، سائنس لیبارٹری، لائبریری بیت الخلاء اوردیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔  ہر ضلع میں آج بھی درجنوں گھوسٹ سکول چل رہے ہیں جن کا روئے زمین پر کوئی وجود نہیں، مگر ان کا سٹاف ہر مہینے سرکار کے خزانے سے تنخواہیں وصول کرتا ہے۔ سرکاری محکموں میں خرابی بیسیار کے باوجود ایک مثبت تبدیلی یہ ہے کہ عوام کی سوچ میں تبدیلی آرہی ہے وہ کوتاہیوں کی نشاندہی کر رہے ہیں وہ وقت دور نہیں جب ارباب اختیار و اقتدار کو عوامی خدشات دور کرنے پر توجہ دینی ہوگی۔ ہم بھی مطمئن ہیں کہ عوام کی آواز میں اپنی آواز شامل کرلی ہے۔ کوئی تو سن لے گا۔