ایبٹ آباد: باران ِرحمت اور زحمت!

مون سون بارشوں کا آغاز اِس سال شدت سے ہوا ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) اور محکمہئ موسمیات (pmd.gov.pk) نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ چند روز بھی (چودہ جولائی تک) طوفانی بارشوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ بارہ جولائی کے روز خیبرپختونخوا کے جن حصوں (تیمرگڑھ‘ دیر‘ میرخانی‘ کالام‘ سیدوشریف‘ پٹن‘ مالم جبہ‘ ایبٹ آباد (کاکول)‘ بالاکوٹ اور پاڑہ چنار) میں بارش ہوئی‘ وہاں چوبیس گھنٹوں کے دوران بارش اور تیز ہواؤں (طغیانی) سے فصلوں‘ باغات‘ مکانات‘ شاہراؤں اور دیگر تعمیرات و تنصیبات کا زیادہ نقصان ہوا ہے۔ ایبٹ آباد میں سالانہ بارشوں کا تناسب 1532 ملی میٹر (60.3 انچ) ہے جبکہ رواں مون سون سیزن جو کہ سترہ جولائی سے جاری ہے اِس میں گیارہ جولائی کی صبح 8 بجے سے بارہ جولائی کی صبح 8 بجے تک (24 گھنٹوں کے دوران) 180 ملی میٹر بارش ’کاکول مرکز‘ میں ریکارڈ کی گئی‘ جو اِس لحاظ سے غیرمعمولی (زیادہ) ہے کیونکہ اِس قدر بارش چند گھنٹوں میں ہوئی جس کی وجہ سے قریبی پہاڑی علاقوں سے ایبٹ آباد کی جانب پانی کا بہاؤ انتہائی تیز رہا‘ جبکہ برساتی نالوں (نکاسیئ آب) کی گنجائش خاطرخواہ نہیں تھی اور یوں ’سیلابی ریلا‘ ایبٹ آباد کے نشیبی رہائشی علاقوں سے ٹکرایا جہاں بعض مقامات پر 4 سے 6 فٹ بلند ریلا راستے میں آنے والی ہر پست و بلند چیز (سڑکیں‘ پل اور آہنی حفاظتی حصار) بہا لے گیا۔ ایبٹ آباد کے مقامی افراد اپنی یاداشت کے مطابق (بارہ جولائی کی شب ہوئی) اِس قدر بارش کو انتہائی زیادہ قرار دے رہے ہیں جس سے بالائی اور زریں ایبٹ آباد کا کوئی بھی حصہ محفوظ نہیں رہا بلکہ وہ علاقے زیادہ متاثر ہوئے جو نشیب میں ہیں جیسا کہ تحصیل حویلیاں جہاں کا ایک انتہائی اہم رابطہ پل بھی سیلابی ریلے کو برداشت نہ کر سکا۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ ہرنو (ہرنوئی تفریحی مقام) سے لیکر زریں ایبٹ آباد (حویلیاں) تک پختہ تجاوزات میں کثیرالمنزلہ عمارتیں بھی قائم ہیں جنہیں سیلابی ریلے سے محفوظ کرنے کے لئے نالے کے درمیان میں دیواریں کھڑی کی گئیں ہیں تاکہ پانی کا ٹکراؤ اِن تجاوزات کے ساتھ نہ ہو۔ یوں ایک غیرقانونی عمارت بنانے سے زیادہ رقبہ اُسے محفوظ کرنے کیلئے قبضہ کیا گیا ہے اور  یہ بے قاعدگی دن دیہاڑے دیکھی جا سکتی ہے۔ حالیہ بارش سے ایبٹ آباد کے میدانی (شہری) علاقوں بالخصوص مرکزی شاہراہئ قراقرم کے کئی حصوں کو نقصان پہنچایا ہے اور حسب سابق بارش کے پانی سے ایبٹ آباد کے معمولات ِزندگی شدید متاثر ہوئے ہیں‘ جن میں تعلیمی اداروں اور دفاتر کو جانے والوں کو سب سے زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ رات دس بجے سے شروع ہونے والی بارش صبح چھ بجے تک وقفوں وقفوں سے جاری رہی لیکن تیز بارش کا سلسلہ نصف شب کے بعد تین گھنٹے رہا اور اِس دوران تیز ہواؤں کے باعث بجلی کی فراہمی کا نظام معطل ہوا جو کئی علاقوں میں بعداز دوپہر جزوی بحال ہوا۔ باون یونین کونسلوں پر مشتمل ضلع ایبٹ آباد کے شہری علاقوں میں بارش کے پانی سے ہونے والا نقصان کلی طور پر ’قدرتی آفت‘ قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اصل مسئلہ پانی کی نکاسی کا ہے جس پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی جا رہی۔ انتظامی طور پر ایبٹ آباد چار وفاقی اور صوبائی اداروں میں تقسیم ہے۔ یہاں کی مرکزی شاہراہ اور سیاحتی مقامات کو جانے والی شاہراہ کے کچھ حصے ’نیشنل ہائی ویز اتھارٹی‘ کے پاس ہیں‘ باقی ماندہ صوبائی پبلک ہیلتھ‘ کیمونیکیشن اینڈ ورکس (سی اینڈ ڈبلیو) اور ٹاؤن میونسپل اتھارٹی جبکہ چھاؤنی کا علاقہ مکمل طور پر ’کنٹونمنٹ بورڈ‘ کے اختیار میں ہے اور یہ اِدارے اپنی اپنی حدود میں شاہراؤں کی تعمیر و مرمت اور آباد کاری کے لئے بھی ذمہ دار ہیں۔ علاؤہ ازیں ’واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسیز کمپنی (ڈبلیو ایس ایس سی)‘ ایبٹ آباد بھی وجود رکھتی ہیں جس کے لئے فروری 2021ء میں ’ایشین ڈویلپمنٹ بینک‘ نے 341 صفحات پر مشتمل ایک جائزہ رپورٹ مرتب کی جس کا مقصد ترقیاتی عمل میں ماحول کو مدنظر رکھنا اور ماحول کی اہمیت جانب توجہ دلانا ہے۔ (مذکورہ رپورٹ ویب سائٹ adb.org سے مفت حاصل کی جا سکتی ہے)۔ ایبٹ آباد سے متعلق جملہ حکمت ِعملیوں کا خلاصہ یہ ہے اِس شہر کی نکاسیئ آب کے جملہ نالے نالیوں پر قائم تجاوزات ختم ہونی چاہیئں‘ میونسپل سروسیز مستعد‘ منظم اور فعال نہ ہونے کی وجہ سے ایبٹ آباد کے مقامی اور غیرمقامی افراد کا عمومی رویہ یہ ہے کہ یہ کوڑا کرکٹ برساتی نالوں (جنہیں مقامی زبان میں کسّی کہا جاتا ہے) میں ڈالا یا بہایا جاتا ہے اور اِس عمومی بے قاعدگی کی وجہ سے برساتی نالوں میں پانی کے بہاؤ کی ہمیشہ گنجائش کم رہتی ہے۔ ہر سال برسات سے قبل شاہراہئ قراقرم سے متصل چند ایک مقامات پر نالوں کی صفائی کی جاتی ہے لیکن چونکہ نالوں میں گندگی گرانے کا معاملہ اِنتہائی گھمبیر ہے اور ’ڈبلیو ایس ایس سی‘ کے اپنے اعدادوشمار سے عیاں ہے کہ ایبٹ آباد میں یومیہ پیدا ہونے والی گندگی کا نصف حصہ بھی نہیں اُٹھایا جاتا اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ ’ڈبلیو ایس ایس سی‘ 52 یونین کونسلوں میں سے صرف 4 یونین کونسلوں میں خدمات فراہم کر رہی ہے۔ اگرچہ یہ ادارہ اپنی بھرپور کوشش کر رہا ہے کہ اس کے دائرے میں جو مسائل آتے ہیں ان کا حل نکالا جائے تاہم اس کے لئے زیادہ منظم انداز میں منصوبہ بندی ہونے کی ضرورت ہے اور ساتھ ساتھ وسائل کو مناسب انداز میں خرچ کرنا بھی ضروری ہے جس کی کسی حد تک کمی نظر آرہی ہے۔ اِیبٹ آباد میں پینے کے پانی کی فراہمی‘ صفائی‘ کوڑاکرکٹ اور نکاسیئ آب چار یونین کونسلوں یا کسی ایک اِدارے کی ذمہ داری نہیں بلکہ اِس میں کوتاہی کے مرتکب سبھی اِدارے شامل ہیں جن کی سوچ بچار اور فیصلہ سازی مربوط نہیں۔ اِیبٹ آباد کا سب سے بڑا مسئلہ ’نکاسیئ آب‘ ہے جس وقت تک حل نہیں ہوتا اُس وقت تک ہر نعمت‘ یونہی باعث ِزحمت (آزار) رہے گی۔اس مقصد کے لئے جہاں مزید وسائل کی ضرورت پڑے گی اور اس کا انتظام کرنا پڑے گا وہاں موجودہ وسائل کو بھی منظم انداز میں خرچ کرنے سے مسائل میں بڑی حد کمی آسکتی ہے۔