احتجاج چوک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے ہاں جمہوریت اقدار کا مجموعہ نہیں رہی بلکہ اِس میں سیاسی مفادات اور انتخابی ترجیحات ہیں‘ جن  کا تحفظ ضروری گردانا جاتا ہے۔جمہوریت بالعموم ایک پیچیدہ اصطلاح ہے  اور جب ہم پاکستانی جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو اِس کی پیچیدگی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ اِسی طرح جمہوریت کی کئی تشریحات ہیں اور جب ہم پاکستانی جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو اِس کی تشریحات میں ایک نئے باب کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ درحقیقت جمہوریت کسی ایک زاویئے سے صرف طرزعمل کا احاطہ نہیں کرتی بلکہ اِس میں حقیقت سیاسی‘ اخلاقی‘ معاشی اور معاشرتی ڈھانچے کا نام ہے۔ جمہوریت کے وضع کردہ اصولوں کی بنا پر ہم کسی حکومت‘ ریاست‘ معاشرے یا نظریئے کو جانچ سکتے ہیں کہ کیا وہ نظام یا نظریہ جمہوری ہے یا نہیں۔ اصطلاحی طور پر لفظ ”جمہوریت“ کا ماخذ یونانی لفظ ’ڈیماس کریٹاس‘ ہے جس کے معنی ہیں ”عوام کی حکومت (عوام کیلئے)۔“ جمہوری حکومت سے مراد ایک ایسی حکومت ہے جس میں اختیارات اور فیصلہ سازی کا مقصد عوام کی توقعات (ضروریات) پر پورا اُترنا ہوتا ہے۔ عوام اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ انہیں کس طرح کا حکومتی‘ انتظامی‘ عدالتی‘ معاشی اور معاشرتی نظام پسند ہے۔ جمہوریت نظامِ ِحکومت کی ایک شکل ہوتی ہے جس میں عوام اپنے نمائندے منتخب کر کے امور مملکت انہیں سونپ دیتے ہیں تاکہ وہ اپنی بہترین صلاحیتوں‘ تجربے اور کم سے کم مالی وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے درپیش عمومی و خصوصی مشکلات (قومی‘ علاقائی اور عالمی) مسائل کا حل نکالیں۔ جمہوریت کا تصور ہیروڈوٹس کے زمانے سے موجود ہے اور مختلف یونانی فلاسفہ نے اپنی مختلف تشریحات پیش کی ہیں۔ ارسطو جو کہ اس نظام کے حق میں نہیں تھا وہ اسے ایک ایسے نظام کے طور پہ دیکھتا ہے جس میں کارِ حکومت ایک ہجوم کو تفویض کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بر عکس ’سیلی‘ کے نزدیک جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جس میں ہر کسی کی شراکت ہوتی ہے یعنی یہ سب کی منشا کا ترجمان ہوتا ہے۔ آج کی ”جدید جمہوریت“ کہلانے والے نظام کے تین پہلو ہیں۔ برطانوی پارلیمانی نظام‘ انقلابِ ِفرانس اور صنعتی انقلاب۔ جدید جمہوری نظام کی بنیاد انیسویں صدی میں رکھی گئی جو کہ بیسویں صدی تک تمام یورپ میں پھیل گیا۔ چرچل کے نزدیک آج تک جتنے بھی نظام آزمائے گئے ہیں جمہوریت ان میں سے بہترین نظام ہے اور کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار برٹرینڈ رسل بھی کرتے ہیں۔ اگر جمہوریت کی موجودہ قسموں پہ غور کیا جائے تو تین طرح کے جمہوری نظام سامنے آتے ہیں۔ خالص جمہوریت‘ نیم جمہوریت اور نام نہاد جمہوریت جیسا کہ مشرقی یورپ کے چند ممالک اور کچھ ایشیائی ممالک میں پائی جاتی ہے! دیکھا جائے تو جمہوریت کا فائدہ تب ہی ہوتا ہے جب اس کے صحیح رو کے مطابق قواعد و ضوابط پر عمل کیا جائے اور ایسے رویئے پروان چڑھیں جس میں ایک دوسرے کی رائے کو سننے اور اختلاف کو برداشت کرنے کی صفت ہو جمہوریت کا مطلب ہی یہی ہے کہ اس میں ہر فرد کی اہمیت ہے اور اس اہمیت سے ووٹ کی صورت میں فائدہ اٹھایا جاتا ہے اس لئے ضروری یہ بھی ہے کہ جہاں جمہوری رویئے پروان چڑھیں وہاں ہر فرد کو اپنے ووٹ اور اپنی رائے کی اہمیت کا بھی احساس ہو اور وہ جانتا ہو کہ ایک ایک فرد بالکل اسی طرح اہم ہے جس طرح ایک دیوار کے لئے ہر اینٹ کی اپنی اہمیت ہے اب اگر وطن عزیز میں رائج جمہوریت پر نظر ڈالی جائے تو قطع نظر اس کے کہ یہ جمہوریت کی کون سی قسم ہے اور اسے کس درجے کی جمہوریت قرار دیا جا سکتا ہے حقیقت واضح ہے کہ عام لوگوں سے زیادہ اس کا فائدہ خواص ہی اٹھاتے ہیں چاہے وہ انتخابی طریقہ کار سے اپنے آپ کو ایوانوں تک پہنچانا ہو یا پھر اپنے مفادات کا دیگر طریقوں سے تحفظ کرنا اس تمام کھیل میں عام آدمی ایک طرح سے نظر انداز ہی رہتا ہے۔