امتحانات: جرائم کہانی۔۔۔۔

کسی بھی  تعلیمی نظام میں امتحانات  کا عمل کلیدی اہمیت رکھتا ہے حال ہی میں دسویں جماعت (سیکنڈری سکول سرٹیفکیٹ) کا امتحان الگ کمرے (تنہائی) میں دینے اور نقل کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں نشاندہی ہونے پر ایک امتحانی بورڈ کے اعلیٰ افسرکوان کی ذمہ داریوں سے الگ کر دیا گیا ہے اور ایک سرکاری ہینڈآؤٹ کے مطابق وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے اس معاملے میں ذاتی طور پر دلچسپی لیتے ہوئے سخت ایکشن لیا جس کے نتیجے میں متعلقہ افسر کی خدمات ’امتحانی بورڈ‘ سے ختم کر کے اُن کی خدمات ’ثانوی و بنیادی تعلیم کے محکمے (ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ) کے حوالے کر دی گئی ہیں اور ساتھ ہی اُن کے خلاف قانون کی خلاف ورزی کرنے کے جرم میں کاروائی کا بھی حکم دیا گیاہے۔  حقیقت یہ ہے کہ فوری اور سخت ایکشن لینے سے ہی اس طرح کے واقعات کا سدباب کیا جا سکتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت جس طرح بدعنوانی اور انتظامی بے قاعدگیوں کے خلاف سرگرم عمل ہے اس سے امید پیدا ہوگئی ہے کہ اس طرح کے واقعات مستقبل میں پیش نہیں آئینگے یہاں پر اس امر کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کیا جائے تو بہت سی معاشرتی برائیوں کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے یہاں پر بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی جانب سے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ویڈیو نہ بنائی جاتی اور مذکورہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل نہ ہوتی تو کیا معاملہ اس حد تک پہنچ چکا ہوتا۔یہ توایک ’امتحانی مرکز‘ کی صورتحال منظرعام پر آئی ہے جبکہ خیبرپختونخوا میں 8 امتحانی بورڈز ہیں‘ جن کی زیرنگرانی 10ویں اور 12ویں جماعتوں کے ’بورڈ امتحانات‘ کورونا وبا سے بچاؤ کیلئے حفاظتی تدابیر (SOPs) کے تحت ہو رہے ہیں جبکہ 9ویں اور 11ویں جماعتوں کے امتحانات دسویں اور بارہویں کے امتحانات ختم ہونے کے ایک ہفتہ بعد ہوں گے۔ اِس سال دسویں جماعت کے امتحان کے لئے 8 لاکھ 4 ہزار 565 طلبا و طالبات جبکہ بارہویں (انٹرمیڈیٹ) جماعت کیلئے 5 لاکھ 7 ہزار 177 طلبا و طالبات امتحان دے رہے ہیں۔  امتحانی نظام پر طلباء اور ان کے والدین کا اعتماد قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ یہاں پر نقل اور دوسری بے قاعدگیوں کا مکمل خاتمہ کیا جائے اور اس سلسلے میں موجودہ حکومت پہلے ہی موثر اقدامات کر چکی ہے تاہم اس میں مزید مربوط کوششوں کی ضرورت ہے اور اس عمل میں شریک تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ نجی شعبہ ہو یا سرکاری شعبہ یہاں پر فرائض انجام دینے والے افراد اگر صحیح معنوں میں اپنے تعلیمی کریئر کے دوران قابلیت اور میرٹ پر آگے بڑھے ہیں تو یقینا ان کی کارکردگی سے نجی اور سرکاری دونوں شعبے ترقی کی راہ پر گامزن ہونگے جبکہ دوسری صورت میں اگر نقل کے ذریعے امتحانات میں کامیابی حاصل کی جا سکے تو پھر اس کا نتیجہ تمام شعبہ ہائے زندگی کی کارکردگی متاثر ہونے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔یقینا ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ کوئی طالب علم  نقل کرتے پکڑا گیا ہے بلکہ امتحانات میں چھوٹی موٹی نقل (پوچھ گچھ)‘ تانا جھانکی یوں تو معمول کی بات ہے تاہم یہاں معاملہ یکسر مختلف تھا۔شاعر جان ایلیا نے یہ کہتے ہوئے توجہ دلائی تھی کہ حال میں چھپے مستقبل کی تلاش اور جستجو کی جائے ”عمر گزرے گی امتحان میں کیا …… داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا“ ۔ امتحانی نظام اور امتحانات کی نگرانی کا نظام سنجیدہ توجہ (اصلاحات) کا متقاضی ہے اور اِس سلسلے میں  اعلیٰ حکام کو عام آدمی (ہم عوام) کی تشویش سے آگاہ کرتے ہوئے یاد دہانی کروانی ہے کہ رواں سال جاری امتحانی عمل تاریخ کے مہنگے ترین امتحانات ہیں کیونکہ اِس میں پچیس سے تیس طلبہ پر ایک امتحانی نگران مقرر کیا گیا ہے اور اِس مرتبہ ماضی کے مقابلے زیادہ نگران تعینات کئے گئے ہیں  اور اس پر کثیر اخراجات ہوتے ہیں جن کا تقاضا یہ ہے کہ  امتحانات کے ہر مرحلے میں سخت نگرانی کا موثر نظام موجود ہو اور اس سلسلے میں جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ ایسے واقعات پیش نہ آئیں جن کے باعث امتحانی نظام کے موثر ہونے پر سوال اٹھیں۔