اس وقت افغانستان پھر اسی دوراہے پر آن کھڑاہواہے جہاں یہ کم وبیش 33برس قبل کھڑا تھا جب جنیوا مذاکرات کے نتیجہ میں ایک سمجھوتہ طے پانے والا تھا اور روس نے افغانستان سے نکلنے کااعلان کیاہواتھا عین اس وقت کہ جب روس افغانستان سے انخلاء کی تیاریوں میں مصروف تھا تو اس وقت جنرل ضیاء الحق روس کو فوری انخلاء سے روکنے کیلئے کوششوں میں مصروف ہوگئے تھے اس سلسلہ میں اس وقت کے حالات کے عینی شاہد میجرعامر کے ساتھ کچھ عرصہ قبل جو گفتگوہوئی تھی اس میں انہوں نے واضح کیاتھاکہ یہ بجا ہے کہ جنرل ضیاء کا اولین مقصد روس سے اپنی سرحدوں کا دفاع اور روسیوں کی افغانستان سے واپسی تھی مگر وہ یہ بھی چاہتے تھے‘ روسیوں کی واپسی کے بعد افغانستان میں امن قائم ہو‘ اس دوران جب روسیوں نے افغانستان سے انخلاء کا اعلان کر دیا تو ساتھ ہی امریکہ کی نیت بدل گئی‘ روسیوں کی پسپائی کے ساتھ امریکیوں کے راستے ہم سے جدا ہوگئے‘ جنرل ضیاء نئے حالات میں نئی حکمت عملی اختیار کرنا چاہتے تھے‘ روسی پسپائی کے بعد تو امریکہ اور روس ایک ہو گئے تھے میجر عامر نے انکشاف کیاکہ یہی وہ وقت تھا کہ جنرل ضیاء جنیوا معاہدے پر دستخط نہیں چاہتے تھے کیونکہ اس معاہدے میں افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے کوئی بات نہیں تھی۔ جنرل ضیاء نے ایک طرف جونیجو حکومت کے وزیر خارجہ زین نورانی سے واضح طور پر یہ کہا کہ کسی بھی صورت جنیوا معاہدے پر دستخط نہیں ہونے چاہئیں اور دوسری طرف وہ مستقبل کے سیٹ اپ میں ڈاکٹر نجیب اللہ کی شمولیت کے منصوبے بھی بنانے لگے حتیٰ کہ انہوں نے روسیوں پر بھی زور دیا کہ آپ نے جانے کافیصلہ کر ہی لیا ہے تو جلدی نہ کریں‘مستقبل کے سیٹ اپ میں ہم آپ سے بھی مشاورت کیلئے تیار ہیں تاکہ افغانستان میں دیر پا قیام امن ممکن ہو سکے مگر ضیاء الحق کے ہاتھوں زخم خوردہ روسی ان کی بات سننے کیلئے تیار نہیں تھے میجر عامر کے مطابق روسیوں کے افغانستان نے نکلنے کے اعلان کے بعد جنرل ضیاء چاہتے تھے کہ تمام افغان گروہوں اور عناصر بشمول روسیوں کی باہمی مشاورت سے افغانستان میں ایسا عبوری حکومتی انتظام کیا جائے جس میں تمام افغان شامل ہوں تاکہ روسی فوج کے نکلنے کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی کا خدشہ نہ رہے‘ اس لئے وہ جنیوا معاہدے پر دستخط کرنے میں جلد بازی سے اجتناب کر رہے تھے مگر وزیراعظم محمد خان جونیجو کی ترجیحات کچھ اور تھیں چنانچہ اس معاملے پر صدر ضیاء اور وزیراعظم جونیجو کے درمیان اختلافات اتنے بڑھ گئے کہ ایک رات وفاقی کابینہ کے اجلاس میں صدر ضیاء اچانک پہنچ گئے‘ انہوں نے وزیر مملکت برائے امور خارجہ زین نورانی کو مخاطب کرکے کہا کہ اگر آپ نے مجھ سے پوچھے بغیر جنیوا معاہدے پر دستخط کئے تو پاکستان واپس آنے کیلئے آپ کو فولادی ٹانگیں درکار ہونگی مگر جنرل ضیاء کی یہ تمام کوششیں کامیاب نہ ہوسکیں اور زین نورانی اپریل 1988ء میں جنیوا معاہدے پر دستخط کرکے آگئے تاہم ایک ماہ بعد ہی جنرل ضیاء نے پھر جونیجو حکومت کو گھربھیج کربدلہ توچکا دیا مگر افغانستان میں صورت حال پاکستان کے ہاتھ سے تیزی سے نکلنے لگ گئی تھی متفقہ عبوری حکومت کے قیام کے بغیر روسی انخلاء کانتیجہ پھر طویل خانہ جنگی کی صورت میں سامنے آیا آج جب امریکہ افغانستان سے انخلاء مکمل کرچکاہے تو اس نے بھی پاکستان کی طرف سے باربار کے مطالبہ کے باوجودمتفقہ عبوری حکومت کے قیام کی جانب کوئی توجہ نہیں دی لگتاہے کہ جس طرح روس جلد سے جلد افغان سرزمین سے فوجیں نکالنے کامتمنی تھا اسی طرح امریکہ بھی افغانستان کی سرزمین کو چھوڑنے میں کم سے کم وقت لینا چاہتاتھا اسے اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس کے جانے کے بعد بدقسمت افغانستان پر کیا گذرتی ہے بلکہ اس نے تو روس سے ایک قدم آگے بڑھ کر بگرام ایئرپورٹ رات کی تاریکی میں اس طرح سے چھوڑا کہ خود افغان حکومت کو کئی گھنٹوں کے بعد اس کاعلم ہوا اور تب تک وہاں اچھی خاصی لوٹ مار ہوچکی تھی۔ اس وقت صورت حال سب کے سامنے ہے افغانستان میں پرامن سیاسی تصفیہ کی راہیں تیزی سے مسدود ہوتی جارہی ہیں طالبان ایک حقیقت بن کر سامنے آتے جارہے ہیں حتیٰ کہ برطانوی وزیردفاع نے توپیشگی اعلان کردیاہے کہ اگر طالبان تخت کابل پر قابض ہوتے ہیں تو برطانیہ ان کی حکومت کو تسلیم کرے گا طالبان نے بھی ماضی کے برعکس اس بار صرف عسکری محاذ پر ہی توجہ نہیں دی ہوئی بلکہ ان کی کہیں زیادہ توجہ خارجہ محاذاورپڑوسی ممالک کے ساتھ رابطوں پرمرکوز ہے طالبان کو اس بات کابخوبی ادراک ہے کہ جب تک ایک بھی پڑوسی ناراض ہوگا افغانستان میں برسر اقتدار آکر بھی وہ اطمینا ن سے حکومت نہیں کرسکیں گے کیونکہ ماضی میں پڑوسی ممالک میں صرف پاکستان نے ہی ان کی حکومت کو تسلیم کیاتھا جبکہ ایران،ازبکستان،تاجکستان ترکمانستان نے شمالی اتحاد کی حمایت کی تھی جس کے باعث طالبان کو انتہائی مشکلات کاسامناکرناپڑاتھا بہرحال اس وقت افغانستان پھر سے ایک دوراہے پر کھڑا دکھائی دیتاہے افغان قوم پھر سے ایک آزمائش سے گذرنے جارہی ہے امریکہ نے نکلتے نکلتے بھی پرامن تصفیہ کی کوئی سنجید ہ کوشش نہیں کی بلکہ امریکی صدر کاتویہ کہناتھاکہ ہم افغانستان میں قوم بنانے نہیں گئے افغان عوام اپنافیصلہ خودکریں یوں خود توراہ فراراختیار کرگئے اربوں ڈالر کی لاگت اور بیس سال کی کوششوں سے جو افغان فوج کھڑ ی کی گئی تھی وہ تیزی سے طالبان کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوتی جارہی ہے افغان فوج کامورال جس تیز ی سے گرنے لگاہے اس کے بعد خود افغا ن حکومت کے مستقبل کے حوالہ سے کسی قسم کی پیشگوئی کرنا کو ئی زیادہ مشکل امر نہیں یہی وجہ ہے کہ ایک بارپھر مقامی کمانڈروں کی طر ف اپنے اپنے جتھوں کو مسلح کرنے کی خبریں سامنے آرہی ہیں جس کے بعد فی الوقت پرامن افغانستان کیلئے دعاہی کی جاسکتی ہے۔