آٹو رکشہ: جرنلزم (صحافت) کا سفر

 ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ سے تعلق رکھنے والے ’سبیل اللہ خان آفریدی‘ نے جامعہ پشاور سے سال 2020ء میں صحافت کی تعلیم (ماسٹرز) مکمل کی لیکن صحافتی شعبے میں نئے ملازمتی مواقع نہ ہونے کی وجہ سے وہ بدستور ’آٹو رکشہ‘ ڈرائیور کا پیشہ اختیار کئے ہوئے ہیں‘ جبکہ وہ چاہتے ہیں کہ صحافت کے قومی دھارے میں شامل ہو کر اپنے آبائی علاقے کے رہنے والوں کو درپیش مسائل بالخصوص پسماندگی‘ استحصال‘ غربت‘ ناخواندگی اور بیروزگاری کے حوالے سے قومی فیصلہ سازوں پر دباؤ ڈالیں اور اِس مقصد کیلئے میڈیا سے وابستہ ہونا چاہتے ہیں۔ بقول سبیل خان حکومت کی جانب سے قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والوں کیلئے تعلیمی مواقع تو پیدا کئے جاتے ہیں لیکن اُن کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد خاطرخواہ ملازمتی مواقعوں کا بندوبست نہیں کیا جاتا اور فیصلہ سازی میں صرف یہی ایک خلا نہیں ہے بلکہ ایک کمی یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں نصابی تعلیم کے ساتھ تجربہ درس و تدریس کا جز نہیں ہوتا۔سبیل آفریدی کا تعلق تحصیل باڑہ (انتہائی پسماندہ) علاقے سے ہے‘ جہاں ثانوی و بنیادی تعلیم کے مواقع ہر بچے کو نصیب نہیں ہوتے۔ سبیل آفریدی نے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اہل خانہ کے ہمراہ پشاور نقل مکانی کی اور اِسی ہجرت نے سبیل آفریدی کی تعلیم کے سلسلے کو آگے بڑھایا اور انہوں نے پشاور میں قیام کے دوران سکول‘ کالج اور جامعہ سے تعلیمی ادوار مکمل کرنے کا موقع ملا جو خیبر ایجنسی میں رہتے ہوئے ممکن نہیں تھا لیکن سبیل آفریدی کی راہ میں مالی مشکلات بھی آڑے تھیں جنہیں دور کرنے کیلئے اُنہوں نے آٹو رکشہ ڈرائیور بننے کا فیصلہ اُس وقت کیا جب اُن کے پاس تعلیم جاری رکھنے کیلئے مالی وسائل کی کمی تھی اور اِسی آٹو رکشے کے ذریعے مزدوری سے حاصل ہونے والی آمدنی سے اُنہوں نے سکول کالج اور پھر جامعہ پشاور سے تعلیمی مدارج مکمل کئے۔ اُنہیں پشاور میں ’آٹو رکشہ‘ چلاتے ہوئے قریب سات سال کا عرصہ گزر چکا ہے‘ جسے وہ عیب نہیں سمجھتے اور نہ ہی اپنی اِس شناخت کو چھپاتے ہیں بلکہ اُن کے ’آٹو رکشہ ڈرائیونگ‘ کے انتخاب کے پیچھے بھی دانستہ محرک کارفرما ہے کہ آٹو رکشہ ایک ایسا روزگار ہے جو دن اور رات کے اوقات میں کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے۔ سبیل آفریدی نے ملازمت کی بجائے خود روزگار اور خود کفیل ہونے کا فیصلہ کیا جو درست و کامیاب ثابت ہوا اور اگرچہ وہ فی الوقت حسب ِتعلیم ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں لیکن وہ ایک باہمت اور مثبت تصورات رکھنے والے باہمت جوان ہیں‘ جن کی کتاب میں حالات کے سامنے ہتھیار پھینکنے جیسا لفظ سرے سے موجود ہی نہیں۔ ویسے بھی خیبرایجنسی بشمول جملہ قبائلی اضلاع کے رہنے والوں کی خصوصیات میں سخت جان ہونا‘ محنت سے نہ گھبرانا اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی کردار کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی  خودداری کی حفاظت کرنا شامل ہوتا ہے۔ سبیل آفریدی بھی ایک ایسی ہی پہاڑ جیسی (سخت جان) شخصیت کے مالک ہیں جن کے سامنے اگرچہ زندگی پہاڑ کی صورت مشکلات بھری ہے لیکن اُن میں جدوجہد‘ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کا عزم و حوصلہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے اور وہ دن زیادہ دور نہیں جب وہ اپنے آبائی علاقے (خیبر ایجنسی) و دیگر قبائلی اضلاع کے لئے ستاروں کی طرح چمکتے ہوئے فخر و نوید ثابت ہوں گے اور اُن  لوگوں کی زبان بن کر ترجمانی کریں گے جن کی آنکھوں میں اُمید کی چمک ماند پڑ چکی ہے!لائق توجہ ہے کہ شمال سے جنوب کی سمت افغانستان کی سرحد اور اِس سے متصل علاقائی پٹی پر سات قبائلی اضلاع باجوڑ‘ مہمند‘ خیبر‘ اورکزئی‘ کرم‘ شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان کے اضلاع 31مئی2018ء کے روز سے 25ویں آئینی ترمیم لاگو ہونے کے نتیجے میں خیبرپختونخوا کے 7 ڈویژنز (بنوں‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ ہزارہ‘ کوہاٹ‘ مالاکنڈ‘ مردان اور پشاور) کا حصّہ ہیں۔ضم ہونے والے اِن قبائلی اضلاع میں سے باجوڑ کو مالاکنڈ‘ خیبر اور مہمند کو پشاور‘ کرم اور اورکزئی کو کوہاٹ‘ شمالی وزیرستان کو بنوں جبکہ جنوبی وزیرستان کو ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن میں شامل کر دیا گیا۔ اِسی طرح صوبائی حکومت کے زیرانتظام 6 قبائلی علاقوں (فرنٹیئر ریجنز المعروف ’ایف آرز‘) کو ملحقہ بندوبستی اضلاع میں شامل کر لیا گیا جیسا کہ ایف آر بنوں کو ضلع بنوں اور ایف آر کوہاٹ کو ضلع کوہاٹ میں ضم کر دیا گیا۔ پسماندہ اور نظرانداز اضلاع کی ترقی کیلئے اِسی سوچ کے تحت 2018ء کے آخر میں ضلع چترال جو کہ خیبرپختونخوا میں رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ضلع ہے اِسے بالائی چترال اور زریں چترال میں تقسیم کر دیا گیا جس کے بعد خیبرپختونخوا میں اضلاع کی کل تعداد 35 ہو گئی ہے جبکہ رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا (13ہزار 162 مربع کلومیٹرز پر مشتمل) ڈویژن مالاکنڈ ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے مذکورہ 7 ڈویژنز میں نئے اضلاع شامل کئے گئے ہیں لیکن صوبائی مالی وسائل (آمدن) میں اِس حد تک اضافہ نہیں ہوا۔ ایک اور زاویہ یہ بھی ہے کہ صرف قبائلی اضلاع ہی نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کے کئی بندوبستی اضلاع بھی ایسے ہیں جو خاطرخواہ تعمیر و ترقی (بنیادی سہولیات) سے محروم ہیں اور حال ہی میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع کی طرح قیام پاکستان سے بندوبستی علاقوں کی حیثیت رکھنے والے اضلاع کے تعلیم یافتہ نوجوان (لڑکے لڑکیوں) کی اکثریت بیروزگار ہے۔ سبیل آفریدی ایسے سبھی بیروزگاروں کیلئے مشعل ِراہ ہیں جن کے حوصلے حالات پست نہیں کر سکتے اور وہ حسب تعلیم ملازمت نہ ملنے کا جواز پیش کرتے ہوئے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کسی غیبی مدد کے منتظر رہنے کی بجائے اپنے ہاتھوں‘ اپنے مستقبل کی تشکیل کر رہے ہیں۔ ”وہی جہاں ہے ترا‘ جس کو تو کرے پیدا …… یہ سنگ و خشت نہیں جو تری نگاہ میں ہے۔