قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے مشران پر مشتمل گرینڈ جرگہ نے 2017ء کی مردم شماری کو حقائق کے منافی قراردیا اور کہا کہ مردم شماری میں قبائلی علاقوں کی آبادی کو کم ظاہر کیا گیا ہے جبکہ لاکھوں آئی ڈی پیز کو شمار ہی نہیں کیا گیا۔ انہوں نے جرگہ نظام کی بحالی کابھی مطالبہ کیا اورقبائلی گرینڈ جرگہ نے تمام قبائل سے پانچ ہزار افراد پرمشتمل ایک اور گرینڈ جرگہ بلانے کا بھی اعلان کیا۔اس میں شک نہیں کہ آئینی ترمیم کے ذریعے فاٹاکا عبوری سیٹ اپ ختم کرکے اسے قومی سیاسی دھارے میں شامل کرنا ایک تاریخی اقدام ہے۔ اس فیصلے کے ذریعے تاریخ میں پہلی بار قبائلی عوام کو قومی و صوبائی اسمبلی کیلئے اپنے نمائندے بالغ رائے دہی کے ذریعے منتخب کرنے کا اختیار دیا گیا۔ اب بلدیاتی اداروں کیلئے بھی قبائلی عوام اپنے نمائندے ووٹ کے ذریعے منتخب کریں گے۔ قبائلی عوام سے حق خود ارادیت اور اظہار رائے کی آزادی چھینی نہیں گئی بلکہ تاریخ میں پہلی بار انہیں اظہار رائے کی آزادی ملی ہے۔ تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ قبائلی عوام سے جو وعدے کئے گئے تھے ان کے بروقت پورے نہ ہونے سے ان میں بے چینی پیدا ہونا فطری امر ہے اور کچھ عناصر اپنے مذموم مقاصد کیلئے قبائلی عوام کو انضمام سے متنفر کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومت نے قبائلی علاقوں میں تعلیم، صحت اور خدمات کا معیار بہتر بنانے اور لوگوں کو بنیادی شہری سہولیات کی فراہمی کیلئے خطیر رقم مختص کردی ہے۔ بیشتر قبائلی اضلاع میں امن و امان کی صورت حال کافی بہتر ہوئی ہے۔ تعمیر و ترقی کا عمل جاری ہے۔ لوگوں کو ان کی دہلیز پر روزگار کے مواقع اور انصاف کی فراہمی کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں تاہم 70سالوں کی محرومیوں کا دو تین سالوں میں مکمل ازالہ کرنا ممکن نہیں ہے۔تمام قبائلی اضلاع میں صوبائی محکموں کے دفاتر،پولیس اسٹیشن اورعدالتیں قائم کی گئی ہیں۔ تنازعات کے فوری حل کیلئے قبائلی علاقوں کا گرینڈ جرگہ سسٹم بحال رکھنے پراتفاق ہوا ہے۔ کیونکہ قبائلی عوام عدالتوں کے متبادل نظام انصاف سے زیادہ مانوس ہیں اور انہیں جرگہ نظام پر اعتماد ہے۔ صوبے کے دیگر اضلاع میں بھی معمولی نوعیت کے تنازعات حل کرنے کیلئے مصالحتی کمیٹیوں کا نظام رائج ہے اور اس کے حوصلہ افزاء نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ قبائلی جرگہ سسٹم کو بھی مصالحتی کمیٹیوں کی طرز پر برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ اس سے عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کم ہوگا اور تنازعات کے فوری حل اور انصاف کی جلد فراہمی میں بھی مدد ملے گی۔ قبائلی عوام کے تحفظات کو دور کرنے کے لئے علاقے میں دوبارہ مردم شماری بھی کرائی جاسکتی ہے۔ شکایت ہے کہ حالیہ مردم شماری میں قبائلی علاقوں کی آبادی کو بہت کم ظاہر کیاگیا ہے تو اس کا جائزہ لیا جا سکتا ہے کیونکہ ترقیاتی منصوبہ بندی آبادی کی بنیاد پر ہوتی ہے۔وفاقی اور صوبائی حکومت نے ضم شدہ اضلاع میں ترقی کے سفر کو تیز کرنے اور ان علاقوں کو دیگر حصوں کے برابر لانے کیلئے جو اقدامات کئے ہیں ان کے اثرات نظر آنے لگے ہیں اور یہاں پر اب معیاری بنیادی سہولیات اکثر جگہوں پر دستیاب ہیں تاہم ضروری ہے کہ ترقیاتی سرگرمیوں کے ساتھ قبائلی عوام کے بعض جائز تحفظات دور کرنے اور ان کا اعتماد بحال کرنے کیلئے بھی ٹھوس اور فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔