جیل اصلاحات کا تعمیری فیصلہ۔۔۔۔

خیبر پختونخوا کی جیلوں میں مجموعی طور پر 22ہزار 656افراد مختلف جرائم کے سلسلے میں قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ان میں 440خواتین قیدی بھی شامل ہیں سب سے زیادہ قیدی ہری پور جیل میں ہیں جن کی تعداد دس ہزار سے زیادہ ہے۔ سینٹرل جیل پشاور میں 1916، بنوں جیل میں 1194، مردان میں 1713، بٹگرام میں 2021 اور داسو کوہستان جیل میں قیدیوں کی تعداد 1585ہے۔تیمرگرہ جیل میں 631، صوابی میں 578اور کوہاٹ جیل میں 500قیدی موجود ہیں۔ ان قیدیوں میں دہشت گردی، تخریب کاری، قتل، اقدام قتل، اغوا برائے تاوان اور دیگر سنگین جرائم کے ساتھ معمولی نوعیت کے مقدمات میں ملوث افراد بھی شامل ہیں۔ بہت سے قیدی ایسے بھی ہیں جن کی ضمانتیں نہ ہونے کی وجہ سے وہ کئی سالوں سے سلاخوں کے پیچھے زندگی گذارنے پر مجبور ہیں اور درجنوں کی تعداد میں بچے بھی ان جیلوں میں موجود ہیں جنہوں نے خود تو کوئی جرم نہیں کیا۔ مگر اپنی ماؤں کے جرم کی سزا بھگت رہے ہیں۔کسی کو قانون توڑنے پر قید کرنے کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ قید تنہائی گذارنے کے بعد جب وہ جیل سے باہر آجائے تو اپنے گناہوں سے توبہ کرے اور معاشرے کا مفید شہری بن جائے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اکثر قیدی جب جیل سے باہر آتے ہیں تو معاشرے کیلئے پہلے سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ خیبر پختونخوا حکومت نے قیدیوں کو معاشرے کا مفید شہری بنانے کے لئے متعدد اقدامات کئے ہیں۔ نوجوان قیدیوں کو جیلوں میں تعلیم کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں سینکڑوں کی تعداد میں قیدیوں کو جیلوں میں مختلف ہنر سکھائے گئے جن میں ٹیلرنگ، پائپ فٹنگ، الیکٹریشن اور مختلف دستکاریاں شامل ہیں تاکہ جیل سے باہر نکلنے کے بعد وہ اپنے فن کو بروئے کار لاکر عزت کی روزی کما سکیں۔ صوبائی حکومت نے جیلوں میں اصلاحات کیلئے اربوں روپے کے فنڈز کی منظوری دی ہے۔قیدیوں کی سیکورٹی بہتر بنانے کیلئے 836افراد پر مشتمل خصوصی سیکورٹی فورس قائم کی گئی ہے۔ پشاور جیل کی توسیع اور سہولیات بہتر بنانے کیلئے ایک ارب چالیس کروڑ 80لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ مردان جیل کیلئے ایک ارب 78کروڑ، ڈیرہ جیل کیلئے 50کروڑ، ہنگو جیل کی تعمیر و توسیع کیلئے 26کروڑ چالیس لاکھ، ہری پور جیل میں زیرتربیت سٹاف کے ہاسٹل کیلئے 20کروڑ، صوبے کی چھ جیلوں میں ہائی سیکورٹی زونز کیلئے بارہ کروڑ بیس لاکھ، موجودہ 23جیلوں میں سہولیات بہتر بنانے کیلئے پندرہ کروڑ تیس لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں اسی طرح بنوں جیل واقعے کے بعد جیلوں کی سیکورٹی فول پروف بنانے کیلئے 34کروڑ 80لاکھ، صوابی جیل کی تعمیر کیلئے 50کروڑ، سوات جیل کیلئے پندرہ کروڑ، جیلوں کو الگ فیڈر سے بجلی کی فراہمی کیلئے 20کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ یو این او ڈی سی اور یو ایس ایڈ کے تعاون سے جیل سٹاف کو تربیت دینے کا پروگرام بھی شروع کیاگیا ہے۔ صوبے کی گیارہ جیلوں میں واٹر فلٹریشن پلانٹس لگائے گئے ہیں۔ ہری پور جیل کو سولر سسٹم سے منسلک کردیا گیا۔ صوبے کی دیگر جیلوں کی سولرائزیشن کیلئے 25کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اپر دیر، نوشہرہ، بانڈہ داؤد شاہ، الائی بٹگرام اور نتھیا گلی سب جیل کیلئے مجموعی طور پر 90کروڑ کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ صوبے کی جیلوں میں توسیع و مرمت، سہولیات بہتر بنانے اور سیکورٹی انتظامات مکمل ہونے میں ڈیڑھ دو سال کا عرصہ لگے گا۔ توقع ہے کہ جیل اصلاحات سے نہ صرف قیدیوں کا معیار زندگی بہتر ہوگا بلکہ جیل سے سزا پوری کرکے باہر آنے والے لوگ معاشرے کیلئے مفید ثابت ہوں گے۔جیل اصلاحات کے عمل میں تیزی لانے کے ساتھ بے گناہ قیدیوں کو جیلوں سے چھڑانے کیلئے قانونی امداد کا خصوصی پروگرام شروع کرنے کی ضرورت ہے۔صوبائی حکومت کو اس ضمن میں بھی ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ اصلاحات کا عمل اگر تیزی سے انجام پائے تو اس کے اثرات جلد ہی سامنے آئیں گے اور جس طرح کے مسائل موجودہ حالات میں درپیش ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے مزید تاخیر کی گنجائش نہیں۔