چوتھی لہر

خیبرپختونخوا میں کورونا وبا کی ”چوتھی لہر‘‘جانب توجہ دلاتے ہوئے صوبائی حکومت کی جانب سے طبی اُور معاون طبی عملے کے لئے خصوصی ہدایات (گائیڈلائنز) جاری کی گئی ہیں جن کے مطابق ’کورونا ویکسین‘ لگوانا لازم ہے اُور نزلہ‘ زکام‘ کھانسی‘ نقاہت یا بخار جیسی علامات ظاہر ہونے کی صورت خود کو الگ تھلگ کرنا ہوگا۔ ذہن نشین رہے کہ کورونا وبا ء کی چوتھی لہر وبا ء کے پہلے تین مراحل سے مختلف اُور زیادہ مہلک ہے کیونکہ اِس میں ایک مختلف قسم کے کورونا وائرس سے واسطہ ہے جسے ’ڈیلٹا (Delta)‘ کا نام دیا گیا ہے‘ جو 14جولائی سے شہ سرخیوں میں آئے یہ وائرس ’SARS-CoV-2‘ دسمبر 2020ء سے بھارت میں پایا جاتا ہے جو اب پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔کورونا وائرس کی دیگر اقسام کے مقابلے یہ وائرس اِس لئے زیادہ مہلک ہے کیونکہ اِس کے پھیلنے کی صلاحیت زیادہ ہے اُور دوسرا اِس سے متاثر ہونے والوں کی اکثریت کو ہسپتالوں میں داخل ہونا پڑتا ہے جبکہ کورونا وبا کا باعث بننے والے دیگر جرثوموں میں علاج معالجے کے لئے ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت پانچ فیصد سے کم رہتی تھی اُور تیسری اہم بات یہ ہے کہ ’ڈیلٹا‘ نامی جرثومہ کورونا ویکسین لگنے کے باوجود بھی متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اُور یکم جون تک یہ جرثومہ 62 ممالک میں پھیل چکا تھا جبکہ تین دن بعد (چار جولائی) یہ 104ممالک تک پھیل گیا اُور آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں 23 فیصد مریض ’ڈیلٹا‘ سے متاثر ہیں۔ خیبرپختونخوا میں کورونا وبا کی مجموعی صورتحال سے متعلق محکمہئ صحت یومیہ اعدادوشمار جاری کرتی ہے جن کے مطابق 95فیصد (ایک لاکھ چونتیس ہزار ایک سو چوالیس) مریض صحت یاب ہو چکے ہیں جبکہ 4 ہزار 386 مریض زیرعلاج یا زیرنگرانی ہیں جن میں 62فیصد مرد ہیں اُور اِن متاثرہ مریضوں میں سب سے زیادہ تعداد پشاور (907)‘ نوشہرہ (237)‘ ایبٹ آباد (200)‘ مردان (95)‘ صوابی (87) اُور لوئر دیر میں 87 کورونا مثبت ہیں۔قومی سطح پر کورونا کی صورتحال پر نظر رکھنے والے وفاقی ادارے ’نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر‘ کی جانب سے کورونا کی چوتھی لہر سے خبردار کیا گیا ہے جو پاکستان کے اردگرد اُور دنیا کے اُن سبھی ممالک میں پھیل چکا ہے جہاں کورونا وبا کی پہلی اُور دوسری لہر بڑے پیمانے پر جانی نقصانات کا باعث بنی ہے اُور پاکستان میں 50 سے 70 فیصد مریضوں کا تعلق ’ڈیلٹا‘ سے بتایا گیا ہے۔ این سی اُو سی جانب سے ڈاکٹروں کے علاؤہ عمومی ہدایات وہی ہیں جو کورونا کی پہلی تین لہروں میں تھیں کہ کم سے کم دس سیکنڈ تک ہاتھ دھونے ہیں‘ ماسک پہن کر سانس لینے اُور خارج کرنے کو ڈھانپ کر رکھنا ہے اُور سماجی فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے پرہجوم مقامات سے دور رہنا ہے چونکہ بیرون ممالک محنت مزدوری کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہوتا ہے اِس لئے کورونا لاک ڈاؤنز کی وجہ سے وطن واپس آنے والے اپنے ساتھ کورونا وبا کی نئی اقسام ڈیلٹا‘ الفا اور بِیٹا ساتھ لائے ہیں اُور یہی وجہ ہے کہ اِن تینوں اقسام کے بڑھتے ہوئے کیسز کے پیش نظر ویکسینیشن کا عمل تیز کرنے اور وبا سے متاثرہ علاقوں میں سمارٹ لاک ڈاؤن لگانے کی کوششیں تیز کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو صوبائی حکومت کی جانب سے درست ردعمل ہے۔صوبائی محکمہئ صحت نے کورونا کے مثبت کیسز کے پچاس نمونے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (اسلام آباد) کو بھیجے گئے تھے جن میں سے سولہ میں ڈیلٹا اور پانچ میں الفا قسم (ویرینٹ) کے جرثومے پائے گئے۔ این آئی ایچ نے گزشتہ ماہ وائرس کے الفا‘ بیٹا اور ڈیلٹا ویرینٹ کے آٹھ کیسز کی تصدیق کی۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ ڈیلٹا ویرینٹ تیزی سے پھیل رہا ہے اور ویکسین کے باوجود مختلف متاثرین میں پایا گیا۔ پشاور میں سترہ سے بائیس سال عمر کی تین خواتین اور ستائیس سے تیس سال عمر کے دو مردوں میں الفا ویرینٹ کے موجود ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔ علاوہ ازیں ان کا کہنا تھا کہ پشاور میں سترہ سے بائیس سال عمر کی تین خواتین اور ستائیس سے تیس سال عمر کے دو مردوں میں الفا قسم کے موجود ہونے کی تصدیق ہوئی۔ پشاور میں سولہ سے پچاس سال کی عمر کی چھ خواتین اور چوبیس سے ستر سال کے دس مردوں میں ڈیلٹا قسم کا انکشاف ہوا ہے۔ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈیلٹا قسم کا وائرس بھی پشاور میں موجود ہے اُور اِس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد زیادہ ہے۔ قابل ذکر ہے کہ وائرس کے خلاف ویکسین لگوانے والوں میں کووڈ کے کیسز میں نمایاں کمی آئی ہے اور ڈیلٹا قسم سے متاثر ہونے کے باوجود علاماتیں درمیانی درجے کی ہیں۔ خیبر میڈیکل یونیورسٹی پشاور نے حال ہی میں ’سنجر سیکوینسر‘ حاصل کیا جس کی مدد سے کورونا کی نئی اقسام کی شناخت ممکن ہو گئی ہے۔ خیبرمیڈیکل یونیورسٹی میں ایک سال کے دوران تین ہزار کورونا کیسز کو ٹیسٹ کیا گیا اور کورونا کی نئی قسم کی تشخیص کے لئے جدید آلات بھی حاصل کر لئے گئے ہیں۔ اِن آلات اُور تکنیک سے وائرس کے پورے جینوم میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کی شناخت ممکن ہے۔ کورونا کی نئی قسم کی تشخیص کے لئے فی مریض قریب پچاس ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں اسی وجہ سے اس تکنیک کو انتہائی مشکوک نمونوں کے لئے استعمال کیا جائے گا۔محکمہ صحت خیبرپختونخوا نے ڈیلٹا‘ الفا اور بیٹا اقسام کے ظاہر ہونے سے پیدا ہوئی صورتحال کو ”غیر یقینی“ قرار دیا ہے اُور اگرچہ مکمل لاک ڈاؤن نافذ نہیں کیا جا رہا لیکن عوام سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ کورونا وبا کو سنجیدگی سے لیں اُور کورونا سے بچاؤ کے بارے میں احتیاطی تدابیر (SOPs) پر عمل درآمد جاری رکھیں لیکن یہاں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ حکومت احتیاطی اقدامات پر عمل درآمد کی تمام تر ذمہ داری عوام پر ڈال رہی ہے جبکہ ضلعی انتظامیہ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تجارتی مراکز‘ دفاتر اُور پبلک مقامات پر کورونا ایس اُو پیز پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔ اصولاً جن علاقوں میں کم سے کم پانچ کورونا مریض ظاہر ہوں وہاں ’منی (جزوی) لاک ڈاؤن‘ لگاتے ہوئے اُن چند مکانات اُور گلیوں کو آمدورفت کے لئے بند کر دینا چاہئے جبکہ دس یا اس سے زیادہ مثبت کیسز ظاہر ہونے کی صورت میں ایک یا کچھ گلیوں میں ’سمارٹ (حسب ضرورت) لاک ڈاؤن‘ نافذ کیا جانا چاہئے۔ کورونا کو صرف عام لوگ (ہم عوام) ہی نہیں بلکہ انتظامیہ بھی خاطرخواہ سنجیدگی سے نہیں لے رہی جو (خدانخواستہ) کسی بڑے نقصان کا مؤجب بن سکتا ہے۔