مہنگائی اوربے چینی 

کسی بھی ملک کے عام لوگ جن کی آمدن صرف روح وجسم کارشتہ بڑی ہی مشکل سے برقراررکھنے کی حامل ہوتی ہے ایک دوفیصد مہنگائی بھی ان کے کمزور سے بجٹ کو کچل کررکھ دیتی ہے قیمتوں میں معمولی سے اتارچڑھاؤ کی بدولت پر ان کو پھر ایک وقت کے کھانے پر ہی اکتفا کرناپڑتاہے ان لوگوں کو پھر اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ خارجہ محاذ پر ملک کیا کامیابیاں سمیٹ رہاہے حکومت طویل المیعاد کامیاب منصوبے کتنی تعداد میں لارہی ہے یا پھر اصلاحاتی عمل کس رفتار سے جاری ہے ان بے چاروں کو تو فکر صرف اس بات کی ہوتی ہے کہ چولہاکیسے جلے گا کتنے ہی گھرانے ایسے ہیں جن کو بمشکل صبح کا سادہ ترین برائے نام ناشتہ نصیب ہوتاہے ناشتہ بھی کیاہوتا پندرہ بیس روپے کادودھ چند روپے کی چینی اورپتی اور ڈھیرسارا پانی،جیب نے اجازت دی تو تازہ سادہ روٹی بصورت دیگر رات کی بچی ہوئی روٹی پر ہی گذارہ کرنا پڑتاہے کتنے فیصد خاندان ایسے ہیں کہ جن کو صرف ایک وقت کاکھانا ملتاہے ایسے میں جب اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوتاہے تو پھر کروڑوں پیٹ بھوکے رہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں گذشتہ دنوں ملک میں چینی، گھی اور کوکنگ آئل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوریکارڈ کیاگیاہے مختلف کمپنیوں نے گھی اور کوکنگ آئل کی قیمتیں  بڑھا دیں تھوک مارکیٹ میں چینی کی فی کلو قیمت 94روپے سے بڑھ کر 100روپے ہوگئی چینی کی پچاس کلو کی بوری 4700روپے سے بڑھ کر 5000ہوگئی درجہ اول گھی کی قیمت میں 38روپے فی کلو اضافہ ہوگیا جس کے نتیجہ میں درجہ اول گھی 305روپے سے بڑھ کر 343روپے ہوگیا درجہ دوئم گھی کی قیمت میں 15روپے فی کلو اضافہ ہوگیا جس کے باعث درجہ دوئم کے گھی کے نرخ 270روپے سے بڑھ کر 285روپے ہوگئے بجٹ پیش ہونے کے بعد جون میں ملک میں مہنگائی کی شرح میں 0.28فیصد اضافہ ہوا ہے اور سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی اوسط شرح بڑھ کر 14.52 فیصد ہوگئی ہے۔ وفاقی بجٹ کے بعد اشیائے ضروریہ کے نرخوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے‘ بجلی کے نرخوں میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی بڑھ رہی ہیں بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ملک بھر میں مہنگائی میں اضافہ کا باعث ہوتا ہے ستم بالائے ستم یہ کہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرنے کے ساتھ ہی بجلی کے بھارتی بھر کم بل صارفین کو ارسال کئے جارہے ہیں صارفین کو بھاری بل کی درستگی کے لئے واپڈا کے دفتروں میں جا کر خوار ہونا پڑتا ہے کئی صارفین کو مایوس ہو کر ناجائز اضافی بل جمع کرلیتے ہیں ہمارا یہ ایک قومی المیہ ہے کہ ہمارے سارے اداروں کی کارگزاری انتہائی مایوس کن ہے اگر ادارے فعال اور متحرک ہوتے تو نہ مہنگائی ہوتی اور نہ عوام کو مہنگائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے گذشتہ دنوں نواحی ضلع کے ایک گاؤں میں رہنے والے پڑھے لکھے ایک دوست نے بتایاکہ چند ماہ قبل ہمارے گھر کابجلی کامیٹر تبدیل کیاگیا جس کے بعدہمارے گھر کابل پچاس سے سترہزار روپے ماہانہ آنے لگا بہت دہائی دی مگر کسی نے نہ سنی بڑ ی مشکلوں کے بعدجب دوسرامیٹر لگایا تو اب بل پانچ سے چھ ہزار روپے آرہاہے یوں ہمارے اس دوست کو چند ماہ میں لاکھوں روپے کابھتہ دیناپڑا ہمارے ہاں ایک طرف ملکی معیشت کی بحالی اور استحکام کے بلند وبانگ دعوے ہورہے ہیں لیکن دوسری طرف صورت حال بالکل اس کے برعکس ہے ملک میں اشیائے ضروریہ کے ساتھ ساتھ دیگر چیزیں بھی مہنگی ہورہی ہیں‘حکومتی ادارے اور متعلقہ حکام مہنگائی کے خلاف کسی قسم کی ٹھوس کاروائی نہیں کرتے جس سے یہی تاثر سامنے آتا ہے کہ سب کے سب بہتی گنگامیں ہاتھ دھونے میں مصروف ہیں‘وزیراعظم عمران خان ملک کے چیف ایگزیکٹیو ہیں عوام کی نظریں ان کی طرف لگی ہیں اور ان کی طرف سے مہنگائی کے خلاف سخت عملی اقدامات کے منتظر ہیں اگر مہنگائی اسی طرح جاری رہی تو اس سے وزیراعظم کی سیاسی ساکھ اور ان کی عوام میں مقبولیت میں کافی کمی ہوسکتی ہے مہنگائی کا فائدہ اپوزیشن اٹھا سکتی ہے اور اب عوام نے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ مہنگائی کے خاتمہ بارے جلسوں میں لمبی لمبی تقریریں کررہے ہیں اس سے حکومت کی نیک نامی بدنامی میں بدل سکتی ہے اس لئے وزیراعظم عمران خان کو سب سے زیادہ زور مہنگائی کے خاتمہ پر دینا چاہئے اس میں خود ان کا اور عوام کا فائدہ ہے جہاں تک مہنگائی کاتعلق ہے تو اس کے خاتمہ کے لئے طویل وقلیل المدتی دونوں قسم کے اقدامات کی ضرورت ہے‘وزیر اعظم عمران خان کو یہ بات ذہن نشین کرنی ہوگی کہ ان کے ایجنڈے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ صرف اورصرف مہنگائی ہے جس دن حکومت نے مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرنے میں کامیابی حاصل کرلی اس دن سے حکومت کوہر قسم کے سیاسی خوف اوردباؤ سے نجات مل جائے گی موجودہ حکومت نے بیرونی محاذ میں کئی بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں ادارہ جاتی اصلاحات کی بدولت بھی بہت زیادہ کام ہوا ہے بڑے ڈیموں پر کام جاری ہے سی پیک کے منصوبے تیز ی سے تکمیل کی طرف گامزن ہیں مگر یہ سب کچھ ایک مہنگائی کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوجاتے ہیں کیونکہ عام پاکستانی صرف اورصرف باعزت طریقہ سے اپنے گھروں والوں کی جائز ضروریات پوری کرناچاہتاہے اور اب وقت آگیاہے کہ حکومت کی تمام ترتوجہ اس عام پاکستانی پر مبذول ہو لنگر خانے کھولنا زبردست اقدام ہے احساس پروگرام کے ذریعہ کفالت بھی اچھا منصوبہ ہے مگر جب مہنگائی کی لہر اسی طرح بے قابو رہے گی تو تمام مثبت حکومتی اقدامات کے ثمرات سے عام لوگ محروم رہیں گے خودوزیر اعظم عمران خان متعدد مواقع پر اس امر کا اظہار واعتراف کرچکے ہیں کہ اس وقت ہمارے سامنے سب سے بڑا چیلنج مہنگائی پرقابو پانے کاہے جہاں تک مہنگائی کاتعلق ہے تو ہمارے ہاں مصنوعی مہنگائی ہی اصل مسئلہ ہے جس کے حل کے لئے اب حکومت کو ایک طرف مجسٹریسی نظام کی بحالی ممکن بناناہوگی دوسری طرف مسابقتی کمیشن کے ذریعہ مینوفیکچررز کے باہمی گٹھ جوڑ کو ناکام بنانے کے لئے بھی مؤثر میکنز م تشکیل دیناہوگا بصورت دیگر بڑھتی ہوئی مہنگائی کے نتیجہ میں بے چینی میں اضافہ ہوسکتاہے جس سے پھر یقینا حزب اختلاف ہی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی۔