حقائق تلخ اور ناقابل یقین ہیں۔ 1: اسرائیلی کمپنی نے موبائل فونز‘ کمپیوٹرز اور مواصلاتی رابطوں کے دیگر آلات کے ذریعے شخصیات کی جاسوسی کرنے کا ایسا طریقہ دریافت کیا‘ جس کے سامنے تمام تر حفاظتی تدابیر ناکام ہوتی ہیں۔ مذکورہ جاسوسی خصوصی سافٹ وئر ’پیگاسیس (Pegausu)‘ کے ذریعے کی جاتی ہے جو صرف اسرائیلی حکومت کے ذریعے حکومتوں کی درخواست پر فروخت کیا جاتا ہے اور اِس کے ایک سال کے استعمال (اجرأ) کی قیمت پچاس سے ستر لاکھ ڈالر ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ’پیگاسیس‘ یونانی علم الاساطیر جسے دیومالائی اور علم الحزافات بھی کہا جاتا ہے سے تعلق رکھنے والا ایسا گھوڑا ہے جو پرندوں کی طرح اُڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 2: پیگاسیس کا شمار دنیا کے مہلک ترین ہتھیاروں میں ہوتا ہے جو 5ویں قسم کی جنگ (ففتھ جنریشن وار) میں سائبر حملوں (cyber attacks) کیلئے استعمال ہوتا ہے اور سے بچاؤ کی تدبیر کسی بھی ملک کے پاس نہیں۔ 3: پیگاسیس خریدنے والے 45 ممالک کی فہرست میں بھارت‘ بحرین‘ قازقستان اور میکسیکو کے نام شامل ہیں جبکہ پیگاسیس کا ممکنہ طور پر شکار ہونے والوں وزیراعظم عمران خان کا نام بھی شامل ہے تاہم یہ جاسوسی اُن کے وزیراعظم بننے سے قبل کی گئی۔ستمبر 2018ء میں ’دی سٹیزن لیب (The Citizen Lab)‘ نامی سائبرسیکورٹی کے کینیڈین ادارے نے اُن 45 ممالک کے ناموں پر مبنی ایک فہرست جاری کی جو پیگاسیس نامی سافٹ وئر کا استعمال کر رہے تھے یا کر چکے تھے۔ اکتوبر 2019ء میں واٹس ایپ (What's App) نے انکشاف کیا کہ صحافی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے اراکین کی جاسوسی کیلئے پیگاسیس کا استعمال کیا گیا۔ انکشافات کا یہ سلسلہ شروع ہوا تو ہر خاص و عام پیگاسیس کے بارے میں کم اور اِس بارے میں زیادہ جاننے کی خواہش رکھتا تھا کہ وہ اپنے فون یا کمپیوٹر کو پیگاسیس کے حملے سے کیسے بچائے۔ درحقیقت پیگاسیس موبائل فونز اور کمپیوٹروں کے مرکزی سافٹ وئر (operating system) میں موجود خامیوں کا فائدہ اُٹھاتا ہے اور ایسی خامیاں اگرچہ ہر دن دور کی جا رہی ہیں لیکن پیگاسیس کے عنوان سے جاسوسی کے نت نئے حربے تلاش کر لئے جاتے ہیں اور یہ عملاً ممکن نہیں کہ کوئی بھی موبائل فون‘ کمپیوٹر یا الیکٹرانک مواصلاتی رابطہ پیگاسیس سے محفوظ رہ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ وفاقی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی نے ’بیپ (Beep)‘ نامی سافٹ وئر ایجاد کیا ہے‘ جو تجرباتی مراحل سے گزر رہا ہے۔ 19 جولائی کو ٹوئیٹر اکاؤنٹ (@MOITOfficial) سے جاری ہونے والے وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) امین الحق نے پیغام میں کہا کہ ”وزارت آئی ٹی نے ’بیپ پاکستان‘ کے نام سے خصوصی و محفوظ ایپلی کیشن تیار کرلی ہے۔ تمام سرکاری افسران و ملازمین اس ایپلی کیشن کے استعمال کے پابند ہوں گے۔ ایپلی کیشن پر اِن ہاؤس آزمائش ہورہی ہے (اور) چند ماہ آزمائش کے بعد اسے لانچ کردیا جائے گا۔“ ایک ایسی صورتحال میں جبکہ پاکستان کی سالانہ آمدن و اخراجات سے زیادہ مالی وسائل تحقیق پر خرچ کرنے والے ممالک کے تیار کردہ ’آئی فونز‘ اور ’مائیکرو سافٹ ونڈوز سسٹم رکھنے والے کمپیوٹرز‘ محفوظ نہیں وہاں پاکستان کا یہ دعویٰ کہ اِس نے ”محفوظ“ ایپلی کیشن تیار کر لی ہے اپنی جگہ اہم ہے۔ درحقیقت وفاقی وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے ذرائع ابلاغ کے دباؤ (تنقید) سے بچنے کیلئے ’بیپ پاکستان‘ کا اعلان کر دیا جسے ہیکنگ سے محفوظ رکھنا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ ہیکنگ ایک عالمی ہتھیار بن چکا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ سال 2010ء میں اسرائیل سے تعلق رکھنے والے ٹیکنالوجی کے تین ماہرین نیؤ (Niv)‘ شالیو (Shalev) اور اُومری (Omri) نے کمپیوٹر‘ موبائل فونز‘ انٹرنیٹ اور جی ایس ایم موبائل فونز کے سگنل استعمال کرنے والے صارفین کی جاسوسی کے لئے ایک کمپنی بنائی جس کا نام‘ اِن تین شراکت داروں کے ناموں کے ابتدائی حروف سے اخذ کرتے ہوئے ”این ایس او (NSO) گروپ ٹیکنالوجیز“ رکھا گیا۔پیگاسیس کے بارے میں حالیہ جاری بحث ایمنسٹی انٹرنیشنل اور فرانسیسی میڈیا گروپ ’فوربڈن سٹوریز‘ کی جانب سے جاری کی گئی ایک فہرست سے متعلق ہے۔ اس فہرست میں شامل فون نمبروں کو ’پیگاسس‘ کے ذریعے ہیک کیا گیا۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب اسرائیلی جاسوس سافٹ وئر (این ایس او) کا استعمال پاکستان کے خلاف کیا گیا ہو۔ دسمبر 2019ء میں برطانوی اخبار گارڈین نے انکشاف کیا تھا کہ پیگاسیس کا استعمال کرتے ہوئے کم از کم 2 درجن پاکستانی سرکاری حکام کے موبائل فونز کو نشانہ بنایا گیا۔ اب تک کی شائع کی گئی معلومات کے مطابق اس فہرست میں کم از کم 180 صحافیوں کے نمبر شامل ہیں جن کا تعلق دنیا کے چند معتبر اداروں جیسے اے ایف پی‘ سی این این‘ نیو یارک ٹائمز‘ الجزیرہ اور دیگر مختلف اداروں سے ہے۔ اس کے علاوہ فہرست میں بڑی تعداد میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے کارکنوں کے نمبر ہیں۔ جس ایک نکتے پر بہت کم بات ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ صرف وہی ممالک پیگاسیس کا استعمال کر سکتے ہیں جن کے اسرائیل حکومت سے تعلقات (مراسم) اِس قدر گہرے ہوں کہ وہ اسرائیل کے دشمنوں کو اپنا دشمن اور اسرائیل اُن کے دشمنوں کو اپنا دشمن سمجھتا ہو! انفارمیشن ٹیکنالوجی سے لیس ’الیکٹرانک آلات‘ کا غیرمحفوظ ہونا عیاں ہے اور اب محفوظ صرف وہی ہیں جو سمارٹ کہلانے والے موبائل فونز اور کمپیوٹروں کا استعمال نہیں کرتے۔ شخصی آزادی اور انسانی حقوق کی اِس کھلم کھلا خلاف ورزی کرنے پر اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمہ چلنا چاہئے کیونکہ اِس نے ففتھ جنریشن وار کا حصہ بنتے ہوئے اُن جنگی و دیگر جرائم میں حصہ لیا ہے‘ جس نے ہر رابطے اور اظہار کو مشکوک بنا دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل جس طرح کے منصوبوں پر عمل پیرا ہے وہ امن سے زیادہ بدامنی اور بے چینی پھیلانے سے تعلق رکھتے ہیں اور بھارت جیسے ممالک ان منصوبوں میں برابر کے شریک ہیں۔