بڑھتی ہوئی آبادی دنیا کیلئے ایک مسئلہ تو ہے البتہ اس مسئلہ کو کس طرح حل کیا جائے اس پر الگ الگ خیالات ہیں اٹلی کے ڈکٹیٹر مسولینی کی جب علامہ اقبال سے ملاقات ہوئی تھی تو اس نے یہی پوچھا تھا کہ اسلام یا پیغمبر اسلام کی تعلیمات میں بڑھتی آبادی کو روکنے کے سلسلے میں کیا کہا گیا ہے؟ اور جب علامہ اقبال نے جواب دیا تھا کہ حضور نبی اکرم ﷺکی حدیث ہے کہ جب کسی شہر یا بستی کی آبادی ایک خاص حد سے تجاوز کرجائے تو نئے شہر آباد کرو تو مسولینی اپنی کرسی سے یہ کہتے ہوئے اچھل پڑا تھا کہ ’کتنا عمدہ خیال‘ ہے۔آج کی دنیا میں لاکھوں انسان بھوک، بیماری اور وبائی امراض سے مررہے ہیں ماہر معاشیات آبادی میں اضافہ کی ضرورت محسوس کررہے ہیں تاہم حکومتوں کی کوشش ہے کہ آباد ی کو کنٹرول میں رکھاجائے لیکن دوسری طرف یہ حقیقت بھی ہمارے سامنے ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک چین نے افزائش نسل کو ایک حد میں رکھنے کیلئے جو قانون بنایا تھا اس میں ڈھیل دے دی ہے۔آبادی میں اضافہ کا مسئلہ ایک سنگین مسئلہ ہے مگر اس کو روکنے کی جو تدابیر کی جائیں یا جو قانون بنایا جائے وہ اور زیادہ احتیاط کا متقاضی ہے۔ اس مسئلے کو ماہرین معاشیات کی آراء کی روشنی میں حل کیا جانا چاہئے اسی طرح ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان کی آبادی موجودہ شرح سے بڑھتی رہی تو 2046 ء میں یہ دو گنا ہو جائے گی جس سے بے روزگاری میں مزید اضافے اور رہائشی سہولیات کے فقدان جیسے مسائل بھی گھمبیر ہو جائیں گے۔پاکستان کی موجودہ آبادی بائیس کروڑ نفوس پر مشتمل ہے اس لحاظ سے پاکستان دنیا کا چٹھا بڑا ملک ہے۔ ملکی آبادی میں سالانہ 2.40 فیصد اضافہ ہو رہا ہے جو خطے کے دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں آبادی بڑھنے کی شرح دیگر ایشیائی ممالک سے زیادہ ہے۔ماہرین کے مطابق پاکستان کی موجودہ آبادی میں مسلسل بڑھوتری کو سمجھنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس کا تعلق ان مسائل سے ہے جن کا واسطہ پاکستانی عوام کو روزمرہ زندگی میں رہتا ہے۔آبادی میں تیزی سے اضافے کا مطلب خوراک، تعلیم، صحت، روزگار اور انفراسٹرکچر جیسی ضروریات میں مسلسل اضافہ ہے، جسکی وجہ سے وسائل اور ضروریات کے درمیان عدم توازن پیدا ہوجاتا ہے۔صحت اور آبادی کے مسائل پر تحقیق اور حکومت کو ان مسائل کے حل کیلئے پالیسی تجویز کرنیوالے ادارے پاپولیشن کونسل پاکستان کے مطابق اگر آبادی اسی تناسب سے بڑھتی رہی تو دو ہزار چالیس تک گیارہ سے بارہ کروڑ تک مزید نوکریوں کی ضرورت ہوگی۔پاکستان کو پہلے ہی مکانات کی کمی کا سامنا ہے ایسے میں شہریوں کے لئے رہائشی ضروریات پوری کرنا بھی بڑا چیلنج ہو گا۔اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں پانچ سے سولہ سال کی عمر کے بچوں میں سے ہر تیسرا بچہ سکول سے باہر ہے۔ آبادی کی شرح میں بے تحاشا اضافہ اور خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات میں کمی عوام کی زندگی کے ہر پہلو پر اثر انداز ہو رہی ہے۔پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں بھی ہوتا ہے جہاں ہر سال بارہ ہزار خواتین حمل و زچگی کے باعث موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ایک ہزار بچوں میں سے باسٹھ بچے ایک سال کی عمر سے پہلے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ایک خاتون سے پیدا ہونیوالے بچوں کی اوسط شرح 3.6 فیصد ہے جو جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔آبادی میں اضافے کے باعث پاکستان میں صحت کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔بچوں کی پیدائش میں مناسب وقفہ نہ ہونا بچوں میں غذائیت کی کمی کا سبب بنتا ہے۔ماہرین کاکہناہے کہ پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر سات فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں، 38 فیصد بچوں کا قد عمر کے لحاظ سے مناسب نہیں اور 23 فیصد بچے وزن کی کمی کا شکار ہیں بڑھتی ہوئی آباد ی کی وجہ سے ہی پانی کی قلت کاسامنا بھی کرنا پڑرہاہے بعض رپورٹوں کے مطابق 1951 ء کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں فی کس 5300 مکعب میٹر پانی دستیاب تھا جو اس وقت ایک ہزارکیوبک میٹر سے کم رہ گیا ہے اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ زیادہ آبادی کے لحاظ سے کہیں بھی شہر ی خدمات پہنچانا مشکل ہو جاتا ہے۔مثال کے طور پر پانی یا سیوریج کی ایک کلومیٹر پائپ لائن سے پہلے سو گھروں میں پانی کی ترسیل ہو تی تھی آبادی بڑھنے سے اسی پائپ لائن پر ایک ہزار گھروں کو پانی پہنچانے کا بوجھ پڑ گیا ہے۔آبادی بڑھنے کی وجہ سے زرعی زمینیں ہاؤسنگ کالونیز میں تبدیل ہو رہی ہیں جس کے باعث دیہی علاقے شہر سے دور ہو تے جا رہے ہیں ماہرین کہتے ہیں کہ اب وقت آگیاہے کہ ایسا قومی بیانیہ تشکیل دیاجائے جس میں آبادی کو معاشی اور معاشرتی ترقی کا بنیادی جزو قرار دیا جائے۔خاندانی منصوبہ بندی کی مطلوبہ ضروریات کو پورا کرنے کے لئے مختص کردہ مالی وسائل بڑھانے کے ساتھ ساتھ ان وسائل کے استعمال میں بہتری لانے کے لئے اقدامات بھی ناگزیر ہیں۔ خاندانی منصوبہ بندی کے مراکز کے علاوہ محکمہ صحت کے تمام مراکز پر متعلقہ سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔ خواتین کی معاشی خود مختاری اور لڑکیوں کی تعلیم پر وسائل خرچ کرنے ہوں گے۔آبادی میں اضافے کو روکنے کے لئے حکومت کو متفقہ پالیسی تشکیل دینا ہوگی بصورت دیگر بڑھتی ہوئی آبادی کابم کسی بھی وقت خوفناک دھماکے سے پھٹ سکتاہے جس کی زدمیں ہمارے تمام قومی وسائل آسکتے ہیں جس کے بعد حالات کی بہتری کے لئے جن کوششوں اوروسائل کی ضرورت پڑے گی وہ شاید پھر ہمارے بس سے باہرہوں بچے تواس دنیا میں آجاتے ہیں مگر پھران کو نہ تو مناسب غذاء ملتی ہے نہ ہی ان کی تعلیم وتربیت پر توجہ مرکوز ہوتی ہے اسی لئے تو پھرمعاشرتی قباحتیں بڑھنے لگی ہیں آبادی کے ٹائم بم کو پھٹنے سے بچانے کے لئے حکومت کو صرف اپنے زور بازو پر انحصار نہیں کرناچاہئے بلکہ تمام مکاتب فکرکے نمائندوں کی مشاورت کے ساتھ حکمت عملی ترتیب دینی چاہئے۔