خیبرپختونخوا کے صدر مقام”پشاور‘‘میں عیدالاضحی دس تا بارہ ذی الحجہ چودہ سو بیالیس ہجری (بمطابق 21 تا 23 جولائی دوہزاراکیس) کی مناسبت سے صفائی کی مثالی صورتحال‘ پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کے نظام کو رواں دواں رکھنے کے لئے ’واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسز پشاور (ڈبلیو ایس ایس پی)‘کی جانب خصوصی حکمت عملی وضع کی گئی جس پر حسب اعلان عمل درآمد ہوا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ڈبلیو ایس ایس پی پشاور کی 92 میں سے صرف 43 یونین کونسلوں میں مذکورہ تین خدمات فراہم کرتی ہے جو پشاور کی نصف آبادی سے بھی کم کا احاطہ کرتی ہے جبکہ باقی ماندہ پشاور کیلئے دیگر ادارے خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ اِن کے علاوہ پشاور کے مضافات میں ایسے دیہی علاقے بھی ہیں جہاں کسی بھی سرکاری یا نیم سرکاری ادارے کی جانب سے 3 بنیادی سہولیات ”صفائی‘ پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور نکاسیئ آب کی خدمات“ فراہم نہیں کی جاتیں اور وہاں کے رہنے والے اپنی مدد آپ کے تحت اِن سبھی ضروریات کا بندوبست کرتے ہیں‘ جن کا کہیں ذکر نہیں کیا جاتا اور نہ ہی سماجی خدمات فراہم کرنے والے ایسے گمنام کرداروں کو سالانہ ’فخر پشاور‘ جیسے اعزاز سے خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ ضرورت ایسی مثالوں کو اُجاگر کرنے کی ہے جو بنا کسی تشہیر‘ بے لوث خدمت کے جذبے سے سرشار اپنے محدود وسائل کا استعمال کرتے ہوئے گردوپیش میں رہنے والوں کیلئے باعث ِرحمت بنے ہوئے ہیں۔ تجویز ہے کہ صوبائی حکومت صرف پشاور ہی نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع میں بھی ایسے گمنام سماجی کارکنوں کی خدمات کا خاطرخواہ اعتراف کرے اور اُنہیں اعزازات سے نوازے تاکہ معاشرے میں ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی آسانیاں بانٹنے کا شرف عام ہو۔قابل ذکر یہ بھی ہے کہ گزشتہ چند برس کی طرح اِس مرتبہ (عیدالاضحی کے موقع پر) بھی اہل پشاور نے صفائی برقرار رکھنے کے لئے متعلقہ ادارے (ڈبلیو ایس ایس پی) سے تعاون کیا۔ اِس سلسلے میں عوامی شعور اُجاگر کرنے کے لئے جو محنت اور مسلسل کوشش کی گئی اُس کے نتائج سب کے سامنے ہیں کہ اب گلی‘ محلوں‘ شاہراہوں‘ چوک چوراہوں اور زیراستعمال نہ رہنے والے قطعات اراضی پر گندگی نہیں پھینکی جاتی بلکہ اِنہیں گھر گھر سے اکٹھا کیا جاتا ہے۔ اہل پشاور کا صفائی کے سلسلے میں اِس قسم کا مثالی‘ قابل فخر اور قابل ذکر تعاون کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آیا‘ جسے اندرون شہر کی یونین کونسلوں اور اِس سے ملحقہ علاقوں پر مشتمل 43 یونین کونسلوں سے 92 یونین کونسلوں تک وسعت دینے کی ضرورت ہے تاکہ پورا پشاور شہری زندگی کے حسن پر مبنی مثالی تصویر پیش کرے اور صرف خیبرپختونخوا ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے لئے نمونہ قرار پائے۔ یہ ہدف مزید تھوڑی سی محنت اُور مختص مالی و افرادی وسائل میں اضافے سے باآسانی حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن کفایت شعاری پیش نظر رہنی چاہئے۔ اِس بات کا مطلب یہ ہے کہ ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ کے قیام سے قبل پشاور سے ایک ٹن (ایک ہزار کلوگرام) اُٹھانے اُور اُسے بیرون پشاور لیجا کر تلفی کے عمل پر اوسطاً 200 سے 300 روپے سے خرچ آتا تھا لیکن ڈبلیو ایس ایس پی کے بعد یہ خرچ بڑھ کر 1500 سے 2000 روپے تک جا پہنچا ہے۔ پشاور سے جمع ہونے والے کوڑا کرکٹ سے بجلی کی پیداوار ممکن ہے،یادش بخیر ایک دہائی قبل پشاور کے کوڑا کرکٹ سے بجلی و گیس حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا جبکہ انجینئرنگ کے بارے میں علمی و عملی تحقیق کے عالمی جریدے ”انٹرنیشنل جرنل آف انجینئرنگ ورکس“ کی ’اکتوبر 2019ء‘ کی اشاعت میں جامع پشاور کے شعبہئ الیکٹرک انجینئرنگ کے 2 طلباء (واجد علی اُور محمد آصف) کی 9 صفحات پر مشتمل مفصل رپورٹ شائع ہوئی‘ تحقیق سے معلوم ہوا کہ پشاور سے اکٹھا ہونے والے کوڑا کرکٹ میں 544 ٹن (یعنی قریب ساڑھے پانچ سو ہزار کلوگرام) اِس قابل ہوتا ہے کہ اُس سے بجلی پیدا کی جا سکتی ہے اور خاص بات یہ ہے کہ اِس طرح تیار ہونے والی بجلی کی قیمت 18 پیسے فی یونٹ (9 سینٹ) ہوگی جو ناقابل یقین حد تک انتہائی کم ہے۔ اِس مرحلہئ فکر پر 2 پہلو بطور خاص توجہ طلب ہیں 1: پاکستان کو سستی بجلی چاہئے۔ ملک میں پانی سے حاصل ہونے والی (پن) بجلی کے موجودہ وسائل سے مجموعی طور پر 50 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جبکہ پن بجلی کی اِس پیداواری صلاحیت میں خیبرپختونخوا کا حصہ پچاس فیصد یا اِس سے زیادہ ہے‘ اگر بڑے شہروں میں کوڑاکرکٹ سے بھی بجلی کی پیداوار حاصل کی جائے تو یہ اضافی صلاحیت ہوگی۔ 2: عیدالاضحی کے موقع پر پیدا ہونے والا کوڑا کرکٹ 100فیصد بجلی بنانے کے لئے قابل استعمال ہوتا ہے۔ جانوروں کی آلائشیں‘ گوبر‘ لد‘ چارہ‘ بھوسہ وغیرہ فوری حرارت فراہم کرنے کے وسائل میں شمار ہوتے ہیں لیکن افسوس کہ ہر سال بارشوں کے پانی کی طرح بیش قیمت کوڑا کرکٹ بھی ضائع کر دیا جاتا ہے اور اِس سلسلے میں سوچ بچار نہیں کی جاتی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمیں مسائل سے پیار ہو گیا ہو؟ ہمارے فیصلہ سازوں کے ذوق و شوق کی تکمیل صرف بیانات و اعلانات تک محدود ہوں؟ (کسی اُور موقع پر کوڑا کرکٹ سے بجلی پیدا کرنے کے ”کامیاب تجرباتی منصوبے“ کا ذکر کیا جائے گا جو ڈائریکٹوریٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (DoST) اُور نجی جامعہ سیکاس یونیورسٹی (CECOS) نے مارچ 2015ء میں مکمل کیا۔ حیات آباد پشاور میں قائم اِس منصوبے پر کل 43 لاکھ روپے خرچ ہوئے اُور اِس کی پیداواری صلاحیت 15کلوواٹ تھی۔)