انسانی زندگیوں سے کھلواڑ۔۔۔۔۔۔

اس بار عید کی خوشیاں کورونا کی صورت حال اورمختلف حادثات کی وجہ سے پھیکی پڑ گئیں۔ عالمی وباء کورونا تو قدرتی آفت ہے جس میں ساری دنیا گذشتہ ڈیڑھ سالوں سے مبتلا ہے لیکن کچھ سانحات قدرتی آفات کے نقصانات سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ عید سے دو روز قبل ایسا ہی ایک حادثہ اپرچترال کے علاقہ ریشن میں پیش آیا۔ پشاور سے عید اپنے پیاروں کے ساتھ منانے کیلئے مختلف شہروں سے آئے ہوئے اٹھارہ مسافر ایک کوچ کے ذریعے جب دومون گول کے مقام پر پہنچے تو گاڑی بریک فیل ہونے کی وجہ سے گہری کھائی میں جاگری۔ ڈرائیور، ایک خاتون اور بینک آفیسر سمیت تین افراد موقع پر ہی دم توڑ گئے جبکہ چھ خواتین سمیت گیارہ افراد شدید زخمی ہوگئے جنہیں گاڑی کی باڈی کاٹ کر نکالا گیا۔ گیارہ میں سے نو زخمیوں کو تشویش ناک حالت میں پشاور ریفر کردیا گیا۔ بونی سے ایک زخمی خاتون کو اس کا بھائی، بھابی اور ماموں زاد لے کر پشاور آرہے تھے کہ لواری کے قریب ان کی گاڑی پھرحادثے کا شکار ہوگئی، زخمی خاتون کا بھائی اس حادثے میں جاں بحق ہوگیا جو سات بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ زخمی خاتون مزید زخموں سے چور ہوگئی اور پشاور کے ایک ہسپتال میں بدستور تشویش ناک حالت میں ہے۔ مرنے والوں کے گھروں میں عید کے دن صف ماتم بچھی ہوئی تھی۔ زخمیوں کے رشتہ دار ان کے ہمراہ ہسپتالوں میں اپنے پیاروں کی زندگی بچنے کی دعائیں مانگ رہے ہیں۔ چترال روٹ پر ٹریفک حادثات کی سب سے بڑی وجہ سڑکوں کی مخدوش حالت ہے۔ عشریت سے لے کر بونی اور مستوج تک سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ان سڑکوں سے بخیریت گذرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ دوسری وجہ مسافر گاڑیوں کا رات کے وقت سفر کرنا ہے۔تنگ پہاڑی راستوں پر سفر کے دوران تھکے ہارے ڈرائیور کو چند سیکنڈ کیلئے بھی اونگھ آگئی تو گاڑی میں سوار تمام افراد کی زندگی داؤ پر لگ جاتی ہیں چترال روٹ پر مسافر گاڑیوں کو پیش آنے والے 90فیصد حادثات کی وجہ ڈرائیوروں کی نیم خوابی ہوتی ہے۔عید کے موقع پر گاڑیاں کم اور مسافر زیادہ ہوتے ہیں ٹرانسپورٹرز زیادہ سے زیادہ مال کمانے کیلئے ڈرائیوروں کو دو دو، تین تین دنوں تک بغیر آرام کئے سفر کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ 72گھنٹوں تک آنکھ جھپکائے بغیر ڈرائیونگ کرنے والے پر غنودگی طاری ہونا فطری بات ہے۔گاڑیوں میں مسافروں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونسنا اور سامان کی اوور لوڈنگ بھی حادثات کی بڑی وجہ ہے۔ لانگ روٹ پر چلنے والی گاڑیوں کی چیکنگ کا کوئی نظام موجود نہیں۔ ناکارہ اور خراب گاڑیاں پبلک ٹرانسپورٹ کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں۔ ریشن حادثے کا شکار ہونے والی گاڑی کے بارے میں بتایا گیا کہ پشاور سے ریشن پہنچنے میں اس نے آٹھ گھنٹے کے بجائے چودہ گھنٹے لگائے اور چھ مقامات پر گاڑی خراب ہوئی تھی۔مسافروں کو محفوظ سفر کی سہولت فراہم کرنا ٹرانسپورٹرز، اڈہ مالکان، ڈرائیوروں اور ضلعی انتظامیہ کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ ان میں سے کسی ایک کی غفلت سے کئی گھروں میں صف ماتم بچھ جاتی ہے۔ ایسے جانکاہ حادثات کی انکوائری ہوتی ہے نہ ہی اب تک کسی کو سزا ملی ہے یہی وجہ ہے کہ اپنے مادی مفادات کیلئے قیمتی انسانی جانوں سے کھیلنے والوں کو شہ ملتی ہے۔ کسی کی غفلت اور لاپرواہی سے ایسا کوئی حادثہ پیش آئے تو جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو معاوضے اور زخمیوں کے علاج معالجے کے اخراجات حادثے کے ذمہ داروں سے وصول کرنے کا قانون تو موجود ہے مگر جب کسی واقعے کی انکوائری ہی نہ ہو۔ تو ذمہ داری کا تعین کون کرے گا اور متاثرین کو معاوضہ کون ادا کرے گا۔ صوبائی دارالحکومت کی پولیس اور انتظامیہ سمیت صوبے بھر کے ضلعی حکام کو ٹریفک حادثات کی روک تھام اور قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع روکنے کیلئے قوانین کا سختی سے نفاذ کرنا ہوگا۔ اور دیکھا جائے تو یہ سلسلہ حادثات کا محض چترال تک محدود نہیں بلکہ پورے ملک میں جان لیوا ٹریفک حادثات میں اضافہ ہوا ہے اور قیمتی جانوں کے ضیاع کا سلسلہ جاری ہے قوانین تو موجود ہیں تاہم ان پر سختی کے ساتھ عمل درآمد کی کمی ہے جس کی طرف بھرپور توجہ دینے کی فوری ضرورت ہے تاکہ قیمتی جانوں کا ضیاع روکا جا سکے۔