صنعتی بحران۔۔۔۔

متعدد وجوہات کی بنا پر پاکستان کی دوسری بڑی (چمڑے کی) صنعت بحران کی زد میں ہے۔ چرب (چمڑہ) سازوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کے مطابق چمڑے کی مجموعی سالانہ طلب کا چالیس سے پنتالیس فیصد حصہ ’عید ِقرباں‘ پر حاصل ہوتا ہے اور کھال اپنے معیار کے لحاظ سے بھی عام دنوں میں ملنے والی کھال سے بہتر ہوتی ہے کیونکہ قربانی کیلئے فربہ اور خوبصورت جانور پسند کئے جاتے ہیں اور مال مویشیوں کے فربہ ہونے کی وجہ سے کھال کا سائز بھی بہتر ہوتا ہے۔ عام دنوں میں بکرے کی کھال چار سے ساڑھے چار مربع فٹ کی ہوتی ہے جبکہ عید قرباں پر بکرے کی کھال کا سائز آٹھ سے بارہ مربع فٹ تک ہوتا ہے جبکہ گائیں اور بیل کی کھال عام دنوں میں پچیس سے ستائیس مربع فٹ جبکہ قربانی کے جانوروں کی کھالوں کا سائز چالیس سے پنتالیس مربع فٹ ہوتا ہے۔ بحران اِس لئے ہے کہ پاکستان میں چمڑے کی قریب آٹھ سو میں سے 70فیصد کارخانے (ٹینریز) بند ہیں جبکہ باقی ٹینریز بھی اپنی آخری سانسیں لے رہی ہیں۔ پاکستان کی چمڑا سازی کی صنعت نہ صرف مقامی حالات بلکہ بدلتے عالمی منظرنامے کی وجہ سے بھی مشکلات کا شکار ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان چمڑا پیدا کرنے والے صف اوّل کے پانچ ممالک میں شمار ہوتا تھا لیکن اب یہ 10ویں نمبر سے بھی نیچے چلا گیا ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر وہ افراد چمڑے کے کاروبار سے منسلک ہیں جو نسل درنسل یہی کام کرتے چلے آ رہے ہیں اور وہ ملبوسات اور دیگر اشیا تک خود بناتے ہیں۔ خاندانی کاروبار ہونے کی وجہ سے جدیدیت اور نئی ٹیکنالوجی کا رجحان کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان میں چمڑے کی بنی مصنوعات کی کھپت بہت کم ہے اور مقامی سطح پر پیدا ہونے والا پچانوے فیصد چمڑا اور اس سے بنی مصنوعات کو برآمد ہوتی ہیں۔ سال 2014ء میں چمڑے کی مصنوعات کا برآمدات میں حصہ ’پانچ اعشاریہ ایک فیصد‘ تھا جو سال 2019ء میں کم ہو کر ’تین اعشاریہ سات فیصد‘ رہ گیا ہے۔ 1990ء کی دہائی میں پاکستان سے چمڑے کی مصنوعات کی برآمدات کل برآمدات کا دس فیصد سے زائد تھیں۔ مالی سال 2019-20ء میں چمڑے کی مجموعی برآمدات 84کروڑ ڈالر سے کم ہوکر 76کروڑ ڈالر جبکہ فی الوقت چمڑے کی پاکستان سے سالانہ تجارت کا حجم 400 ارب ڈالر ہے۔ کورونا کی عالمی وبا کے باعث (دوسرا سال) بھی برآمدات کم ہیں۔ فضائی سفر پر پابندیاں عائد ہیں۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ عالمی وبا کی وجہ سے تجارتی سامان کی نقل و حرکت بھی کئی گنا مہنگی ہوگئی ہے۔ بحری جہاز پر فی کلو گرام چارجز جو پہلے ایک سو سے ڈیڑھ سو روپے فی کلوگرام تھے‘ بڑھ کر قریب ایک ہزار روپے فی کلوگرام ہو چکے ہیں جبکہ ہوائی جہاز کے ذریعے کرایہ 2 ڈالر سے بڑھ کر 6ڈالر سے بھی تجاوز کر چکا ہے اُور اس صورتحال سے صرف پاکستان ہی نہیں خطے کے کئی ممالک بشمول بھارت بھی متاثر ہے‘ جس کی چمڑے کی برآمدات میں اٹھائیس فیصد سے بھی زیادہ کم ہوئی ہیں یعنی ساڑھے پانچ ارب ڈالر برآمدات گزشتہ سال تین اعشاریہ تین ارب ڈالر تھیں۔اِن حالات میں چمڑے کی مصنوعات کی طلب کم ہونے کی تکنیکی وجوہات ہیں اور یہ عالمی سازش نہیں۔